مہا گٹھبندھن کا مسلم معاشرے پر اثر
نعيم سرمد ~
اتر پردیش میں بسپا اور سپا گٹھ بندھن لوک سبھا انتخابات سے چند مہینے پہلے ہو چکا ہے۔ حالانکہ اس کے آثار بہت پہلے سے ہی نظر آ گئے تھے لیکن اکھیلیش یادو اور مایاوتی کے ایکجا ہوکر اس اہم فیصلے کا اعلان کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے اتر پردیش کی سیاست میں اب تک مسلم اس تماشا دیکھنے والی بھیڑ کی طرح رہا ہے جو ٹکروں میں بنٹ کر مداری اور بندر پر نگاہیں نہیں رکھ پاتی۔ بلکہ ڈگڈگی کی آواز سے زیادہ متاثر ہوتی ہے یا مسلم وؤٹ بینک جو کہ اتر پردیش میں ۱۹ فیصد ہے۔ جس کی دوسری مثال اب تک چرواہے کے اس گلے کی طرح رہی ہے جو ایک قطار میں چلنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی قطاروں میں چلتا ہو اور یہ قطاریں کبھی ایک ساتھ کسی بھی سمت اتفاقاً یا دانستہ نہ چلتی ہوں۔ لیکن اس بار سپا بسپا گھٹھ بندھن ہونے کے بعد پورے آثار ہیں کہ مسلم ووٹ بینک
ایکجا ہو اور اپنے ہونے کے تاثرات آئندہ لوکسبھا انتخابات پر چھوڑے۔ مسلم ووٹ بینک کو اس بار یہ موقع سپا بسپا گھٹھ بندھن کے علاؤہ بی جے پی کی غیر ذمےداری سے نمودار ہوئے موضوعات اور اس پر اختیار کی گئی مسلسل خاموشی نے بھی فراہم کیا ہے۔ ان موضوعات میں جو اہم موضوع ہیں
– تین طلاق
– گائے کے نام پر تشدد
– رام مندر
– اردو مُدَرِّس کی تفریق
تین طلاق کا موضوع مذہبی عقیدت کے اعتبار سے بہت ہی نازک موضوع رہا جس کو ہؤا دیتے ہوئے اور جس کی حمایت میں کھڑے ہوکر بی جے پی نے مسلم خواتین کا ہمدرد بننے کی کوشش میں باقی تمام موضوع نظر انداز کر دئے تین طلاق کی حمایت میں بی جے پی کے سیاست دانوں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر انصاف کی دہائی دی اور گائے کے نام پر ہوئے تشدد پر مسلسل خاموشی اختیار کر کے اس آگ کو اور زیادہ بھڑکانے کا عمل جاری رکھا اس کے بعد رام مندر اور بابری مسجد مدعا رہا جسے لوک سبھا انتخابات سے پہلے شدت کے ساتھ الاپا گیا جس کا اصل مقصد لوک سبھا انتخابات سے ہندو ووٹ بینک کو اپنی اور رجوع کرنا ہے۔ جب کہ مسلم ووٹ بینک اور مسلم سماج کو اپنا سب سے بڑا دشمن سابت کرنا بی جے پی کا پہلا فریضہ ٹہھرا۔ جس کے لئے ان مدعوں کو بار بار اٹھایا جاتا رہا۔
اب جب کہ لوک سبھا انتخابات میں زیادہ وقت نہیں ہے ایسے میں سپا بسپا گھٹھ بندھن مسلم ووٹ بینک کو اس طرح ایکجا کر سکتا ہے جیسے دو ہاتھ مل زمیں پر بکھری ہوئے موتیوں کو ایکجا کرتے ہیں مسلم ووٹ بینک کے ساتھ سپا کو جو ایک اور فائدہ اس گٹھ بندھن سے ہوگا وہ دلت ووٹ بینک سے بھی ہوگا جو مایاوتی کی قیادت میں اکھیلیش یادو سے جڑ جائنگے جس کا اثر اس لوک سبھا کے انتخابات پر گہرا اثر ڈالیگا اور اس گٹھ بندھن کو اور مظبوط کریگا اس کے ساتھ ساتھ ہی جو مسلم بسپا سے دلت سماج کے ہمراہ مایاوتی کی قیادت میں پہلے سے بسپا سے جڑا ہوا ہے وہ بھی اس گٹھ بندھن کی طرف راغب ہوگا اور پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کی غلط کارکردگیوں سے مسلم سماج پر ہوئے دوغلے رویے کی اس گٹھ بندھن کے ساتھ جڑ کر مذمت کی شکل میں سپا کے مسلم ووٹ بینک کے ساتھ شانہ بہ شانہ انتخابات پر اپنی چھاپ چھوڑیگا جہاں تک اس گٹھ بندھن کا سوال ہے تو کم از کم اس کے لئے یہ پر سکون تعریف کی جا سکتی ہے کہ اس گٹھ بندھن نے مسلم سماج کو کسی حد تک ايکجا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سماج کو اپنے حقوق سے شناسائی کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ بی جے پی سیاست دانوں نے جو جارہانہ رویہ مسلم سماج کے لئے گزشتہ پانچ سالوں میں اپنے تلخ کلامی کے ذریعے اپنے بیانات میں رکھا ہے۔ اس کے لئے کوئی استعارہ استعمال کرنا میں درست نہیں سمجھتا اور ان تلخ بیانات پر مزاحمت کی بات بی جے پی کے بڑے لیڈروں نے خود ان بیانات کا حصّہ بنکر مسترد کر دی۔ گٹھ بندھن سے پہلے بھی مسلم معاشرے کے حال کسی بھی صورت میں بہت فروغ حاصل کرنے والے نہیں رہے ہیں اب تک مسلمان سماج کو کوئی بھی مسلم پارٹی ایکجا کرنے میں کامیابی کے سواد سے محروم رہی ہے اور اس کی وجہ مسلم سماج کا الگ الگ جگہ پر الگ الگ پارٹی میں شامل ہونے سے پیدا ہوا بکھراؤ ہے اتر پردیش میں مسلم سماج سے کہیں بہتر دلت سماج کی یکجائیت ہے جو کم از کم بسپا کے ساتھ ہمیشہ سے بڑی تعداد میں ایکجا رہی مسلم سماج کو جو یہ موقعہ سپا بسپا کے گٹھ بندھن نے فراہم کیا ہے اس کے نتائج تو آنے والا وقت اور لوک سبھا انتخابات کے نتائج ہی طے کرینگے۔ مگر چونکہ ایک زمانے سے جو مسلم سماج بکھراؤ کی گہری کھائی میں پڑا ادھر سے ادھر کروٹ بدل رہا ہے۔ شاید اس گٹھ بندھن سے اس کھائی میں وہ مقناطیسی روشنی پہنچے جس سے مسلم سماج ایک ساتھ جڑ جائے اور بیدار ہونے کی کیفیت سے دو چار ہو۔ مسلم سماج کی ایکجائی کے لئے جو سپا اور بسپا نے مل کر انتخابات کے مد نظر قدم اٹھایا اس سے امید کی ایک کرن اس بکھری ہوئے سماج کے لئے نظر آئی ہے۔
نعيم سرمد ~
बाबा साहेब को पढ़कर मिली प्रेरणा, और बन गईं पूजा आह्लयाण मिसेज हरियाणा
हांसी, हिसार: कोई पहाड़ कोई पर्वत अब आड़े आ सकता नहीं, घरेलू हिंसा हो या शोषण, अब रास्ता र…