Home Social Culture فیض احمد فیض اور انکی شاعری
Culture - Social - State - February 22, 2019

فیض احمد فیض اور انکی شاعری

Published by- Aqil Raza
By- Faiz ahmad Faiz ~

فیض احمد فیض جن کی پیدائش 13 فروری 1911 کو تقسیمِ ہند سے پہلے سیالکوٹ میں ہوئی جیسا کہ قدیم زمانے میں ہوتا تھا فیض صاحب کی ابتدائی تعلیم کا آغاز بھی گھر سے ہی ہوا انہونے گھر میں ہی اردو فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد ان کا داخلہ انجمن اسلامیہ کے مدرسے میں کرا دیا گیا جس کے صدر خود ان کے والد تھے فیض صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1931ء میں بی اے کے ساتھ عربی میں بی اے آنرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1933ء میں انگریزی ادب میں ایم اے اور پھر1934ء میں عربی زبان و ادب میں بھی امتیاز کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی،، بلا شبہ فیض صاحب اردو ادب کا ایک عظیم نام ہے فیض صاحب نے اپنی شاعری کی ابتداء رومانی فضا میں کی لیکن اس کے ساتھ ہی ترقی پسند تحریک سے وابستگی اور انقلابی سوچ کے زیر اثر یوں ہوا کہ رومانویت اور انقلابی منڈیروں پر ان کی شاعری کا دیا کبھی مدھم تو کبھی تیز روشنی کے ساتھ جلتا رہا فیض صاحب کے سات شاعری مجموعے شائع ہوئے
نقش فریادی
دست صبا کیا ہے
زنداں نامہ
دست تہ سنگ
سر وادی سینا
شام شہر یاراں
مرے دل مرے مسافر
نسخہ ہائے وفا (کلیات)

فیض صاحب نے شاعری میں رومانیت کے ساتھ اشتراک کے عناصر کو بھی یک جا کیا ہے اس کی بہترین مثال ان کے ابتدائی مجوعہ کلام نقش فریادی کی لا فانی نظم مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ میں ملتی ہے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

فیض صاحب کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری اور زندگی میں زیادہ تخالف نہیں دکھائی دیتا۔ جو خیالات ان کی زندگی کو متاثر کر رہیں تھے وہ ہی ان کی شاعری کو بھی مزید بلند بنا رہے تھے فیض صاحب کو عوام اور عوامی جہد و جہد سے دوری قبول نہیں تھی اور نہ ہی ان کی شاعری کو,,,,,, خکومت وقت کو جب فیض صاحب کے نظریات سے اختلاف ہوا تو فیض صاحب نے جیل بھی کاٹی لیکن کبھی ہار نہیں مانی اور اس کی ایک مثال یہ بھی ہے

متاحِ لوح و قلم چِھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے

چند روز اور میری جان | فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں
اپنے اجداد کی میراث سے معذور ہیں ہم

فیض صاحب نے اپنی شاعری میں زمانے کے حالات فکری طبیعت عوام پر بڑھتے ہوئے مظالم کو بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا جہان انہونے اردو روایتی شاعری سے تعلق بنائے رکھا اور عصری تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ وہیں روماونیت بھی ان کی شاعری کا حصہّ رہی اور آج بھی فیض صاحب کی شاعری اپنے مخصوص لب و لہجے کی بدولت ہم لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور آنے والے زمانوں میں بھی اسی طرح زندہ رہیگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

बाबा साहेब को पढ़कर मिली प्रेरणा, और बन गईं पूजा आह्लयाण मिसेज हरियाणा

हांसी, हिसार: कोई पहाड़ कोई पर्वत अब आड़े आ सकता नहीं, घरेलू हिंसा हो या शोषण, अब रास्ता र…