Home Social Politics ڈاکٹر منيشا بانگر مردوادی زہنيت کی چنوتیوں سے لڑ کر اپنی الہيدا پہچان بنانے والی ملک کی منتخب بہوجن ليڈر ہيں۔

ڈاکٹر منيشا بانگر مردوادی زہنيت کی چنوتیوں سے لڑ کر اپنی الہيدا پہچان بنانے والی ملک کی منتخب بہوجن ليڈر ہيں۔

ڈاکٹر منيشا بانگر مردوادی زہنيت کی چنوتیوں سے لڑ کر اپنی الہيدا پہچان بنانے والی ملک کی منتخب بہوجن ليڈر ہيں۔ ناگپور سے پیپلس پارٹی آف انڈيا (PPI) نے انکے لؤکسبھا اميدوار ہونے کا اعلان کيا ہے۔

بہوجن نايک کاشی رام نے بامسيف جيسی معشرتی تنزيم کے ذريعہ خواتين کی نمأندگی کرنے کے ليے ماياوتی کی قابليت کو پہچانا تھا۔ کچھ وقت ميں ہی ماياوتی نے خود کو سابت کر کے دکھايا۔ تب سے لے کر آج تک بہوجن آندولن سے جڑی تنزيموں ميں نيی نسل
کی قيادت کرنے والوں ميں يہ قابليت منيشا بانگر ميں دکھتی ہے۔ پیپلس پارٹی آف انڈيا نے منيشا کی قابليت کو نہ صرف پہچانا بلکہ انہيں ناگپر لؤکسبھا سيٹ سے بھاجپا کے قدآور ليڈر نتن گڈکری کے مدمقابل کھڑا کر ديا ہے۔

پيشے سے ڈاکٹر منيشا، ايش ؤ عشرت کی زندگی کو خيرآباد کہہ کر قريب۲۰ سال پہلے کود پڑی تھيں۔ اپنی فرّاٹے دار انگريزی کی بہ دولت وه نہ صرف يونايٹيڈ نيشنس جيسے بيرونی سٹيجوں پر بہوجنوں کی آواز بنتی رہی ہيں۔ اور ہندی’ اردو’ مراٹھی اور تيلگو کے علاوه ديگر ملکی زبانوں پر بھی عبور حاصل ہونے کی بجہ سے پورے ملک اور ملک سے باہر بھی عاوام کی آواز کو بخوبی پہنچا رہی ہيں۔ وہ انوسوچت جاتی’ جن جاتی’ اؤ بی سی اور اقليت پر ہو رہے ظلم کے خلاف مضبوط کردار ادا کر رہی ہيں۔

يوں تو مظلوم قوموں کی سبسے بڑی چنوتی براہمنی سامنتواد ہے پر ايک عورت ہونے کے ناتے منيشا کی مشکليں کی گنا زياده ہيں۔ مردوادی حکومت کی شکار عورتوں کو جب ڈاکٹر رام منوہر لوہيا نے خاص طور سے مظلوم طبقہ کا نام ديا تھا تو انکا دايره صرف سورن عورتوں تک ہی محدود تھا۔ بہوجن معاشرے کی عورتوں کی حالت تب بھی خراب تھی اور اب بھی خراب ہی ہے۔ ايسے ميں بہوجن سماج سے آنے والی منيشا کی کيسی رہی ہؤنگی اسے سمجھا جا سکتا ہے۔

ايک خاص بات منيشا بتاتی ہيں کہ “مردانہ حکومتی معاشرے ميں عام طور پر خواتين کی مشکلات دوگنی ہيں ليکن اگر آپ بہوجن معاشرے کی عورت ہيں تو آپ کی مشکليں اور بھی سنجيده ہو جاتی ہيں۔ مردانہ نظام کے حامی لوگ عورتوں کی کاميابی آسانی سے حضم نہيں کر پاتے۔ پھر بھی وه اس بات کی زيادہ فکر نہيں کرتیں اور اپنی جدؤجہد کو اور بھی توانای کے جاری رکھتی ہيں۔”

منيشا نے اپنے بیس سالا سياسی کرير ميں خود کو سابت کرنے کے ليے ہر مشکل کو پار کيا ہے۔ وہ اپنی رياضت کے بوتے بامسيف جيسی قومی تنظيم کی نأِب صدر جيسے عہدے پر پہنچیں۔ بامسيف کے ريسرچ اينڈ ڈيوليپمنٹ ونگ کی عارضی ميمبر رہی۔ مول نواسی سنگھ کی نأب صدر رہيں۔ انکی تکرير سے متاثر ہو کر بامسيف نے انہيں اپنے ماہر تربيتکاروں کی ٹريننگ کی زميداری سونپ رکھی ہے۔ وہ تمام صوبوں ميں گھوم گھوم کر اہم زميداری کو انجام ديتی ہيں۔ انہيں حال ہی ميں “استری کال” پراکھر بہوجن ليڈر کا اعزاز ديا گیا۔

ان دنوں منيشا ناگپور ميں لؤکسبھا انتخابات ميں بہ طور اميدوار چناؤ ميں لگی ہؤی ہیں۔ انکے ساتھ پيپلس پارٹی آف انڈيا کے درجنوں اہم لوگوں کی ٹیم کے علاوه سيکڑوں لؤگ دن رات چناؤ ابھيان ميں لگے ہيں۔ منيشا خوب جانتی ہيں کہ انکی جنگ بھاجپا کے ايک بڑے ليڈر سے ہے۔ ليکن منيشا کے چيہرے پر جيسي خود ايتمادی ہے اس سے ساف زاہر ہؤتا ہے کہ وہ چناؤی جنگ کو جیتينگی۔

از- ارشادالحق

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

बाबा साहेब को पढ़कर मिली प्रेरणा, और बन गईं पूजा आह्लयाण मिसेज हरियाणा

हांसी, हिसार: कोई पहाड़ कोई पर्वत अब आड़े आ सकता नहीं, घरेलू हिंसा हो या शोषण, अब रास्ता र…