Home Social بی جے پی کے ساڑھے چار سال
Social - State - January 23, 2019

بی جے پی کے ساڑھے چار سال

~نعیم سرمد

بھارتی جنتا پارٹی اپنے دور اقتدار میں ساڑھے چار سال پہلے آئی تھی، بہت سے وعدوں اور ارادوں کے ساتھ۔ہمیں یاد ہے، ان دنوں ہم اپنے دوستوں سے ان باتوں میں مصروف پائے جاتے تھے کہ کانگریس نے گزشتہ دس سالوں میں جس قسم کا کرپشن کیا ہے اور جس طرح کے مسائل سے اس وقت ملک دو چار ہے، یعنی مہنگائی، کالا بازاری اور فلانا ڈھمکانا ان سے ہمیں بہرحال کوئی نئی سرکار ہی نجات دلا سکتی ہے۔کومن ویلتھ گیمز میں ہونے والے ان گھوٹالوں کو کون بھول سکتا ہے، جن سے پریشان اور جن کا بوجھ اٹھانے والی بے چاری بھولی جنتا اور کچھ نہ کرپانے کی صورت میں اپنی ہی بدحالی کا مذاق بنا رہی تھی۔ایسے میں بھارتی جنتا پارٹی نے نعرہ دیا، اب کی بار مودی سرکار۔مودی سرکار کے پاس راستے تھے بہت سے، جن میں سب سے زیادہ روشن راستہ تھا وکاس یعنی ترقی ۔ترقی کی چاہ کسے نہیں ہے۔ہم سے بہت سے تو ایسے ہی ہیں، جن کے لیے ترقی کا مطلب ہی صرف دو وقت کا کھانا بغیر کسی ذلت، بھیک یا پریشانی کے ان تک پہنچ جانا ہے۔ہم نے سوچا چلو اور کچھ نہیں تو مودی جی کے راج میں ایسا تو کچھ ضرور ہوگا، ان کی سیاسی پارٹی کوئی ایسا ماڈل تو ضرور اپنا ساتھ لائے گی جو جنتا کو اناج اور ایندھن کی بنیادی مشکلات سے چھٹکارا دلاسکے گی۔کیونکہ ہم نے وہ دن بھی دیکھے تھے جب منی شنکر ایئر ، راج ناتھ سنگھ اور سمرتی ایرانی جیسے نیتا سڑکوں پر اتر کر گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پیدل چلتے ہوئے اس وقت کی موجودہ حکومت کی ان مہنگی اور کرپٹ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ لوگ جو ترقی کے زینوں پر چڑھانے کے لیے خود عوام کو اس طرح اور اس درجہ دھکے دے رہے ہیں اور اس طرح جگانے کی کوشش کررہے ہیں جس طرح کسی انقلابی شاعر کی نظم سوتی ہوئی روحوں کو بیدار کردیتی ہے، وہی نیتا حکومت میں آنے کے بعد وکاس کا راستہ بھول کر سیاست کی اوندھی سیدھی اور اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیوں پر ہندو مسلم، دلت برہمن ، تین طلاق، دہشت گردی اور اسلام کا رشتہ، ہندوستانیوں کی راشڑیہ پہنچان بطور ہندو جیسی عجیب و غریب بحثوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔حکومت کی اس قسم

کی حرکتوں نے حساس لوگوں کو بہت پہلے چوکنا کردیا تھا۔ملک میں پھیلتے ہوئے عدم برداشت کے رویے کے خلاف جب ملک کے انٹلکچوئل طبقے نے آواز اٹھائی اور اپنے اعزازات واپس کیے تو ان پر ملک سے غداری کا الزام لگایا گیا اور بھارتی جنتا پارٹی کو یہیں سے ملا وہ ہتھیار جو انہوں نے ہر اس شخص کے خلاف بھرپور استعمال کیا جس نے بھی ان سے ترقی کے بارے میں سوال کیا یا پھر انہیں انہی کا بھولا ہوا وعدہ یاد دلایا، یعنی جو ملک میں ہونے والی ہندو مسلم ایکتا کے خلاف پیدا ہوجانے والی سازش کا بھانڈا پھوڑے اسے غدار کہو، جو ملک کی معاشی حالت پر سوال اٹھائے اسے غدار کہو، جو نوٹوں پر لگنے والی اچانک پابندی کی وجہ پوچھے، اسے غدار کہو، جو ملک میں بھیڑ تنتر کے بھیانک چہرے کی نقاب کشائی کی جرات کرے اسے غدار کہو۔یعنی غداروں کی ایک پوری جماعت تیار ہوتی گئی۔لیکن موجود سرکار بھول گئی، جس سلاطین اور مغلوں کو وہ گالیاں دیتی رہی، انہیں سے اسے کس طرح سبق لینا تھا۔بی جے پی نے اگر ہلدی گھاٹی کی جنگ اور رانا پرتاپ کو چھوڑ کر کسی اور طرف بھی دھیان دیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ کس طرح محمد تغلق نامی سلطان نے عداوتیں کچلنے کے لیے جتنے قتل کروائے اور جس قدر مارکاٹ کی، عوام پر اس کا اتنا ہی گہرا اثر ہوا، بغاوتوں کی آواز اتنی ہی بلند ہوتی گئی۔ لوگ ظلم کے خلاف اتنی ہی مضبوطی سے ڈٹ گئے۔ضیا برنی کی لکھی ہوئی تاریخ ، تاریخ فیروز شاہی کو بھول کر اپنا الو سیدھی کرنے والی سیاسی پارٹی بس یاد رکھ پائی تو اتنی سی بات کہ خلجی مسلمان تھا، اور اس نے زبردستی کسی ہندو رانی سے شادی رچانی چاہی تھی۔جبکہ تاریخ میں ایسی کوئی بات موجود نہیں، جسے اس وقت کے دو بڑے شاہدین، مورخ اور ادیب ضیا برنی اور امیر خسرو دونوں نے ہی بیان نہیں کیا۔بہرحال، ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ پچھلے ساڑھے چار سال میں بی جے پی نے صرف اور صرف ملک اور مذہب دونوں کو اپنے تسلط کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے، مگر عوام اب اس قدر بھی بھولی اور معصوم نہیں رہی ہے کہ اسے یہ پاٹھ اس قدر پڑھایا جاسکے۔مندر مسجد کے ہنگاموں سے دور لوگوں کے مسائل پیٹ اور روزی سے زیادہ وابستہ ہیں اور اب یہ بات گائوں اور شہر کے تمام لوگ بہت آسانی سے سمجھتے ہیں، جس واٹس ایپ اور فیس بک کو موجودہ سرکار اپنی اندھ بھکتی پھیلانے کے لیے استعمال کیا اسی کی افراط نے ان کے حق میں کانٹے بھی بوئے ہیں۔اب غلط فہمیاں پھیلانا جس قدر آسان ہے، اتنا ہی آسان ان کا تدارک بھی ہے کیونکہ کئی ایسے چینل اور اخبارات ہیں جو جھوٹی خبروں اور افواہوں کی حقیقت مکمل طور پر بیان کردیتے ہیں۔مگر افسوس یہ ہے کہ بی جے پی کی حالت ابھی بھی ڈھاک کے تین پات والی ہی ہے، اور اسے اپنی سدھ لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے، اس لیے آنے والے انتخابات کے دور میں اس کے حشر پر ہمیں تو کیا ہی کہنا ہے، جنتا ہی اپنا اثر دکھائے گی۔شکریہ!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

बाबा साहेब को पढ़कर मिली प्रेरणा, और बन गईं पूजा आह्लयाण मिसेज हरियाणा

हांसी, हिसार: कोई पहाड़ कोई पर्वत अब आड़े आ सकता नहीं, घरेलू हिंसा हो या शोषण, अब रास्ता र…