ملک کے حالات اور صحافت
Published by- Aqil Raza
By- Naeem
ملک! بلکہ سرحد کے حالات سے ان دنوں کون واقف نہيں ہے۔ اتنا واقف تو شايد سرحد والے بھی نہ ہوں جتنا عوام ہے۔ اور اسکا سارا کا سارا کريڈٹ جاتا ہے ہمارے ملک کی ميڈيا کو۔ حالات پاکستان کی ميڈيا کے بھی يہی ہيں۔ سرجکل اسٹرائک کو نئے نئے ويڈِيو گيمس کی کلِپنگ سے تشبيہ دی جا رہی ہے۔ ميڈيا جنگ کو ايسے دکھا رہا ہے جيسے يہ بچّوں کا کھيل یا تماشا ہو۔
ايک طرف دونوں ملکوں ميں لوگ جو عام لوگ ہيں’ موم بتّياں جلا رہے ہيں امن کے نام کی’ محبّت کے نام کی تو دوسری طرف ميڈِيا لوگوں ميں زہر بھرنے ميں کوئی کسر نہيں چھوڑ رہا ہے۔ ايک طرف دونوں مُلکوں کے لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہيں دہشت گردی کے خِلاف تو دوسری طرف دونوں ملکوں کا ميڈِيا پورے کے پورے ملک کو ہی دہشت گرد بنانے پر تلا ہوا ہے۔ آپ ٹی وی پر مختلِف نِيوز چينل ديکھئے۔۔۔
کوئی کہہ رہا ہے “پاکستان ہو جایگا دنيا کے نقشے سے صاف” تو کوئی کہہ رہا ہے کہ “پاکستان کو نيست و نابود کر ديا جایگا” کوئی کہہ رہا ہے “گرجا ہندوستان’ کانپا پاکستان” تو کوئی کہہ رہا ہے کہ “کل گھس کر مارا آج گھسنے پر مارا”۔ پاکستانی ميڈِيا کا بھی يہی حال ہے۔ وہ بھی اپنے ملک کی عوام کو بيوقوف بنانے ميں کوئی کسر باقی نہيں رہنے دينا چاہتا۔
اور کيا ہی ذکر کيا جائے اس ميڈِيا کا جو کٹھپتلی ہے کچھ بہت بڑے تاجروں اور کچھ سياسی پارٹِیوں کے ہاتھ کی۔ ميں نے خود ديکھا کہ وزير اعظم تکرير کر رہے ہيں اور وؤٹ مانگ رہے ہيں شہيدوں کے نام پر۔ افسوس اور حيرت ايک ساتھ ہوتی ہے کہ سياست کا معيار اس درجہ گرتا ہوا بھی اپنی آنکھوں سے ديکھ ليا کہ شہيدوں کے خون کا استعمال بھی وؤٹ مانگنے کے لئے کيا جا رہا ہے۔ سياسی جلسے ميں شہيدوں کی تصوير لگا کر اپنا وؤٹ بينک مضبوط کرنے کی گھنونی حرکت اور اس پر لوگوں کا خوش ہونا’ متاثر ہونا’ سب کچھ بہت عجيب اور قابلِ افسوس ہے۔
زمين ملک کے نوجوانوں کے خون سے لال ہوئی جا رہی ہے اور بی جے پی کام کر رہی ہے “ميرا بوتھ سب سے مضبوط” کے نعرے پر۔ سياست کے معانی تو خير کيا ہی اب بچے ہيں جو مارکس اور لينن نے بتائے تھے ليکن کوٹنيتي اور مکّاری ميں کوئی تو فرق باقی رہنا ہی چاہیے۔ پلوامہ ميں جو ہوا وه پورے ملک کے ليے صدمے سے کم نہیں۔ ليکن کيا آپ کو نہيں لگتا کہ اتنا بڑا حملہ آنکھ کے نيچے ہو گیا اور اتنی جانيں جا چکیں تو اسکے لئے کون ذِمَّہ دار ہے ؟ کيسے کوئی ۳۵۰ کلو بارود لے کر آ گیا فوج کے خيمے ميں؟ کيا آپ کو نہيں لگتا کہ سرکار سے سوال کيا جانا چاہيے اس بابت؟
کيا ان جوانوں کی شہادت بلکہ موت کا بدلا صرف جيش پر حملہ کر کے پورا ہو سکتا ہے؟ وه سارے فوجی کسی کے باپ’ کسی کے بيٹے اور کسی کے شوہر بھی تھے۔ ان بچوں’ ماںؤں يا جوان عورتوں کو کیا منھ دکھایگی ہماری سرکار اور کيا منھ دکھاينگے وه دستے جنکی چوک کی وجہ سے اتنا بڑا حملہ انجام تک آيا اور اتنی جانيں گئی۔
ليکن گھوم پھر کر پھر بات وہيں آتی ہے کہ سوال آخر کيا بھی جائے تو کس سے؟
اس سے جو اپنا بوتھ مضبوط کرنے کی جگت ميں لگا ہوآ ہے؟
اس سے جسے فرست نہيں اپنا وؤٹ بينک چمکانے سے؟
اس سے جسے آنے والے انتخابات کی فکر ان بھولے بھالے فوجيوں اور ان کے گھر والوں سے کہيں زياده ہے؟
یا پھر انسے سوال کريں جو جنگ کو مسالا لگا لگا کر پروس رہے ہيں؟
انسے سوال کريں جو کہلاتے تو نِيوز اينکر ہيں ليکن فوجيوں کی وردياں پہن پہن کر ٹی وی پر تماشے کئے ہوئے ہيں? اور بے حرمتی کر رہے ہيں ان نوجوانوں کی جو ملک کی محبّت ميں خود کو فنا کر چکے۔
बाबा साहेब को पढ़कर मिली प्रेरणा, और बन गईं पूजा आह्लयाण मिसेज हरियाणा
हांसी, हिसार: कोई पहाड़ कोई पर्वत अब आड़े आ सकता नहीं, घरेलू हिंसा हो या शोषण, अब रास्ता र…