سورنو کا دس فيسد مالی بنياد پر رزرويشن کس طرح بہوجنوں اور پسماندا کے خلاف ہے۔
By- Naeem Sharmad ~
گزشتہ دنوں مودی سرکار نے اعلیٰ ذات طبقات کو 10 فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا ہے اعلیٰ ذات کے طبقات کو ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں یہ ریزرویشن ملنا طے ہوا ہے جس کے لئے آئین میں 124 ویں ترمیم کی گئی ہے لوکسبھا انتخابات سے کچھ قبل اس قانون کا بننا اس بات کی پوری تصدیق کرتا ہے کہ بی جے پی نے نوکریوں بےروزگاری اور مندر پر کئے گئے فرضی وعدوں سے خائف اعلیٰ ذات کے اپنے ووٹروں کو لبھانے کے لئے اس ریزرویشن کو عملی صورت دی ہے ورنہ چار سال نو مہینے مرکزی حکومت میں بنے رہنے کے بعد مودی سرکار کو اب جاکر کیوں یاد آیا کہ اعلیٰ ذات کے طبقات کو ریزرویشن کی ضرورت ہے
۔۔۔۔ اس کے بعد دوسری بڑی وجہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی ہار بھی ہے جس نے بی جے پی کو یہ قدم اٹھانے کے لئے مجبور کیا ہے سال ۲۰۱۴ کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو ملک بھر سے تقریباً ۱۱.۵ فیصد اعلیٰ ذات طبقے کی یکجا سپورٹ ملی تھی لیکن گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران مختلف وجوہات کے بائث اعلیٰ ذات طبقات کے ووٹروں کی بے رُخی کے رَدِّ عَمَل میں بی جے پی نے پھر سے اپنے اعلیٰ ذات طبقات کی بی جے پی سے دوری اور ناراضگی کی درمیان میں آئی خلا کو بھرنے کے لئے ریزرویشن کو ہتھیار بنایا ہے ویسے بی جے پی اور آر ايس ايس RSS تو بنیادی طور پر پہلے سے ہی ریزرویشن کے خلاف رہے ہیں لیکن اب چونکہ سیاسی تقاضے کھلکر مخالفت کی اجازت نہیں دیتے اور اعلیٰ ذات طبقات کو دیا گیا ۱۰ فیصد ریزرویشن لانے کے بعد مخالفت کی گنجائش اور کم ہو جاتی ہے دوسری طرف اعلیٰ ذات طبقات جو اب تک بہوجن اور مسلم پسماندہ طبقات کو ملنے والے ریزرویشن کی مخالفت کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اب وہ مودی سرکار کے اس فیصلے کا دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے خیر مقدم کر رہے ہیں— جب کہ کئی سیاسی اور سماجی ماہرین اس ریزرویشن کے فیصلے کو آئین کے اَصْلِ اُصُول کے خلاف بتا رہے ہیں قدیم زمانے سے ہی پسماندہ طبقات کو اپنے حقوق انسانی سے محروم رکھا گیا ہے اور بڑی حقیر نظروں سے دیکھا گیا ہے قدیم زمانے سے ہی طاقتور طبقات پسماندہ طبقات کے حقوق پر جَبْراً اپنا حق جماتے آئے ہیں آج بھی ہم ایسے سماج کا حصّہ ہیں جہاں کسی کے پاس جدید ماڈل کی کروڑوں روپے کی گاڑی ہے اور کسی کے پاس دس روپے تک نہیں ہے اسی فرق میں خفیف حد تک مساوات کرنے کے لئے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کے ہاتھوں آئین لکھا گیا تھا جس کی آج مودی سرکار دھجیاں اڑانے کا کوئی موقع رائگاں نہیں جانے دے رہی ہے ہالانکہ مودی سرکار کی اور سے آئے سیاسی بیانات میں اس بات کی تائید کی گئی ہے اور زور دیا گیا ہے کہ دلت مسلم اور باقی پسماندہ طبقات کو ملنے والے ریزرویشن میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائیگی لیکن سیاسی سماجی اور آئین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھرتیاں محدود ہے تو کس تجویز سے اعلیٰ ذات طبقات کو دئے گئے ریزرویشن کی بھرپائی ہوگی ۔ گزشتہ دنوں میں ہی ریاستی اسمبلی میں اعلیٰ ذات طبقات کے کوٹے پر ہو رہی بحث کے دوران جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر منوج جھا نے اس کوٹے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اعلیٰ ذات کا قبضہ دیکھنے کے لئے کہیں بھی بعید جانے کی ضرورت نہیں ہے صرف اسمبلی میں سے ایگزیکٹو کے انچے پائدان پر کام کر رہے لوگوں سے لیکر نیچلے پائدان پر کام رہے لوگوں کا مشاہدہ کر لیا جائے۔غور طلب ہے کہ پہلے ہی سرکاری محکموں میں ۶۰ فیصد سے لیکر ۹۵ فیصد تک اعلیٰ ذات کا قبضہ ہے اور جیسے جیسے اعلیٰ درجے کی اور بڑھتے ہیں اعلیٰ ذات کا دبدبہ بڑھتا ہی جاتا ہے اب ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت اس ۱۰ فیصد اعلیٰ ذات طبقات کو کہاں ایڈجسٹ کریگی ویسے کہنے کو حکومت کی طرف سے دلاسے دے دئے گئے ہیں مگر اس بات پر قائم رہنا حکومت کے لئے آسان نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں تو اعلیٰ ذات طبقات کے لئے لائے گئے ۱۰ فیصد ریزرویشن کی بھرپائی ہوگی اور یہ بھرپائی کہاں سے ہوگی پسماندہ طبقات کا عام سا فرد بھی سمجھ سکتا ہے۔۔ اسی کے بائث اعلیٰ ذات طبقات کو ملے ریزرویشن کے بعد احتجاج اور مخالفت بھی منظر عام پر ملک کے الگ الگ حصوں سے سامنے آئی ہیں جس میں تمل ناڈو دہلی اور دگر ریاستوں میں ہوئے احتجاج اور اعلیٰ عدالتوں میں اس ریزرویشن پر غور و فکر کے لئے دی گئی درخواست ہیں ۲۰۱۹ کی ابتداء ایک طرف اعلیٰ ذات طبقات کو بغیر مانگے ریزرویشن ملنے کا گواہ ہے تو دوسری طرف پسماندہ طبقات کو ملے ریزرویشن کو عدلیہ اور ایگزیکٹو کے ذریعے چھینے جانے کا بھی گواہ بنا ہے قانون سازی عدلیہ ایگزیکٹو کے اس رویے سے صاف ظاہر ہے کہ ان تینوں محکموں کے رویوں میں پسماندہ طبقات کے لئے کوئی عزم نہیں ہے اس کے الٹ اعلیٰ ذات کو اقتصادی اور معاشی طور پر اور مظبوط بنانے کے لئے تینوں محکمے آمادہ ہیں
बाबा साहेब को पढ़कर मिली प्रेरणा, और बन गईं पूजा आह्लयाण मिसेज हरियाणा
हांसी, हिसार: कोई पहाड़ कोई पर्वत अब आड़े आ सकता नहीं, घरेलू हिंसा हो या शोषण, अब रास्ता र…