Home Language نوجوت سنگھ سِدّهو کا مودی کے خلاف بڑا بيان۔
Language - Politics - Urdu - May 23, 2019

نوجوت سنگھ سِدّهو کا مودی کے خلاف بڑا بيان۔

نوجوت سنگھ کا مودی کے خلاف ايک بڑا بيان ہم مضمون ميں تحرير کر رہے ہيں۔ جس ميں وه ثبوتوں اور دليلوں کے ساتھ مودی سرکار کی پول کھول رہے ہيں۔اور ايسے سخت سوال اٹھا رہے ہيں جنکا جواب مودی يا انکی پارٹی سے جڑے کسی شخص کے پاس نہيں۔

نوجوت سنگھ مودی کے تمام غير ملکی دؤروں کی پول کھولتے ہؤے کہتے ہيں کہ مودی صاحب نے اب تک ۵۵ ممالک کے دورے کيے۔ اور اسکے بدلے ملک کے ہاتھ کچھ نہيں آيا اور آی تو صرف دھاندلے بازی۔ وه سلسلےوار ان تمام دوروں کا تذکرہ کرتےہوے کہتے ہيں کہ ان ۵۵ دوروں ميں امبانی کو ساتھ لے کر ۱۸ بڑے معاہده کيے گيے۔ وه معاہدے جو سکاری کمپنيوں کے ساتھ ہونے تھے’ جنہيں کام کرنے کا ۵۰ سال سے زيادہ کا تجربہ تھا۔ ليکن يہ سارے بڑے معاہدے ہوتے ہيں امبانی اڈانی کے ساتھ۔

آگے بتاتے ہيں کہ سبسے پہلی ۲۰۱۵ ميں رشيا کے دورے کے نتيجے ميں امبانی ايک ديواليہ کمپنی خريدتے ہيں سات ہزار پانچ سو کروڑ ميں۔ جسکا نام رِلایٔنس ڈفينس رکھا جاتا ہے۔ دوسرا دورہ فرانس کا کيا جاتا ہے اور تين ہزار کروڑ کا سودا ہوتا ہے۔ ۱۸ جہاز آنے تھے’ تکنيکی لين دين ہونے تھے اور ہندوستان ميں اسکے سبب روزگار کی اميديں تھيں۔ ليکن ايسا کچھ نہيں ہوتا ہے۔ رافيل مدّعے پر وزيرِعاظم بالکل خاموش ہيں۔ اتنی بڑی دھاندلی پر مودی سرکا کا ايسے خاموش رہنا بھی مودی اور بی جے پی سرکار پر اپنے آپ ميں ايک بدنما دھبّا ہے۔

سؤيڈن دؤرے کا ذکر کرتے ہوے نوجوت بتاتے ہيں کہ اس دورے کے بعد اڈانی کو سنگل انجن لڑاکو طيارے بنانے کا سودا ساٹھ ہزار کروڑ ميں طے کيا گیا۔ جبکہ يہ سودا بھی کسی سرکاری کمپنی کو ملنا چاہيے تھا’ ليکن نہيں ملا۔ حب الوطنی کا دم بھرنے والے مودی صاحب نے يہ تمام بڑے بڑے سودے امبانی اڈانی ميں ٹافيوں کی طرح بانٹ کر ملک کی تمام سرکاری کمپنیوں کو کھوکھلا کر ديا ہے۔ اور اس درجہ کہ انکے پاس اپنے ملازموں کو تنخواه دينے تک کے پيسے نہيں ہيں۔

آگے عزرائيل کے ساتھ ہوے ساٹھ ہزار کروڑ کے معاہدے کا ذکر کرتے ہؤے کہتے ہيں کہ يہ سودا ڈی آر ڈی او کو کیوں نہيں ملا۔ ڈی آر ڈی او کيوں گھاٹے ميں چل رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ يہ سارا منافع جو امبانی اور اڈانی کی جيب ميں جا رہا ہے سرکاری خزانے ميں جانا تھا۔ ليکن مودی صاحب کو صرف يہ دو لوگ نظر آ رہے ہيں کہ جن پر پورا ملک لٹايا جا سکتا ہے۔

بانگلاديش کا ذکر کرتے ہوے کہتے ہيں کہ بجلی کا کانٹريکٹ اين ٹی پی سی کو نہ دے کر اڈانی اور امبانی کو پانچ روپے نوّے پيسے ميں دے ديا جاتا ہے۔ اور وہ بھی بغير کسی بڈ کے۔ اين ٹی پی سی کو يہ صرف تين رؤپے ميں ملتا ہے۔ يہ پلانٹ جھارکھيڈ ميں لگایا جاتا ہے اور جھارکھنڈ سات ہزار چار سو کروڑ کے نقصان ميں جاتا ہے۔

اسی طرح کی کيی مثاليں ہيں چاہيں وہ مليشيہ ہو يا ايران’ مياں مار ہو يا موزامبيک کا دورہ۔ مودی کے ہر دورے سے کوی نہ کوی گھوٹالا جڑا ہوا ہے۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ جنوری ۲۰۱۷ سے دسمبر ۲۰۱۷ کے چھوٹے سے وقت ميں اڈانی کی جائداد کيسے ۴.۳ بلين سے بڑھ کر ۱۰.۴ بلين ہو جاتی ہے۔ نوجوت کہتے ہيں کہ مودی وزیرِ عاظم ہيں يا امبانی اڈانی کے کاروبر کی ديکھ بھال کرنے والے منشی۔

تمام ہندوستانی کمپنياں جو کروڑوں کے فائدے ميں تهیں آج کروڑوں کے نقصان ميں ہيں۔ اب چاہے وه بھيل ہو’ بی ايس اين ايل ہو يا اين ٹی پی سی۔ امبانی پہلی اس پرايويٹ کمپنی کے مالک ہيں جو تين مہينے ميں دس ہزار کروڑ کماتی ہے۔ یعنی سال بھر ميں لگبھگ چاليس ہزار کروڑ روپيہ اور دوسری طرف سرکاری پوسٹل ڈپارٹمينٹ پندره ہزار کروڑ کے گھاٹے ميں ہے۔

نوجوت آگے کہتے ہيں کہ کسان اگر دو لاکھ کا لون لے تو اس سے کورا چيک ليا جاتا ہے اور اگر وه بينک کی رقم لوٹا نہ سکے تو اسکی تصویر اور نام کو کوپريٹو بينک کے باہر لگا ديا جاتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کيا امبانی اور اڈانی سے کبھی مودی صاحب نے کورے چيک نہيں ليے۔ ايک لاکھ کروڑ کے قرض دار اڈانی صاحب ہيں تو چاليس ہزار کروڑ امبانی صاحب نے لوٹانے ہيں ليکن آج تک نہيں لوٹايے گيے۔ سينتيس ہزار کروڑ ايس آر نے لوٹانے ہيں جو سرکاری خزانے ميں آج تک واپس نہيں آيے۔ اور کوی بھی سرکاری يا غير سرکاری آدمی اس پر سوال اٹهانے والا نہيں۔

سرکار نے امبانی کو سيمينٹ پلانٹ کے ليے امبانی کو باره سو چاليس ايکڑ زمين صرف چاليس کروڑ ميں دی۔ وہاں سيمينٹ پلانٹ تو خير کيا ہی لگتا’ وه زميں امبانی بيچ ديتے ہيں چاليس ہزار آتھ سو کروڑ ميں۔ اور ادهر ديکهيں کہ بھيل (BHEL) کو جہاں ۲۰۱۳ ميں سات ہزار چار سو کروڑ کا فائدہ ہوا وہيں ۲۰۱۶ ميں نو سو تيره کروڑ کا نقصان۔

نوٹ بندی کا اعلان جس رات کو ہوتا ہے اس کے اگلے دن ہی مودی ايک پرائويٹ کمپنی کے اشتہار ميں نظر آتے ہيں اور يہ پہلے وزير اعظم ہيں جو کسی نجی کمپنی کے اشتہار ميں نظر آيے۔

نوجوت بہت بيباکی سے ايک ايک کر کے اس سرکار کی پول کهولتے ہيں اور ايسے کيی سوال کهڑے کرتے ہيں جو لاجواب کرتے ہيں۔ اتنا سب ديکهنے سننے کے بعد بھی اگر ہيدوستان کی عاوام اپنی آنکھيں نہ کهولے تو صد حيف۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

آج کے کشمير کے حالات’ کشميريوں کی زبانی – پيٹر فريڈرک کے ساتھ

کشمير مدعہ ايک مکمل سياسی مسئلہ تها ليکن اسے ہندوستانی ميڈيا نے پوری طرح ہندو مسلم کا جام…