ای وی ايم کی کہانی شجاع سيّد کی زبانی۔ دوسری قسط۔
Published by- Aqil Raza ~
گوری لنکیش کا قتل سرخیوں میں خوب رہا لیکن اسکی وجہ بتائی گئی کہ گوری لنکیش شدت پسند مذہبی اداروں کے خلاف کام کر رہی تھیں۔ کوئی ایسی تحریک چلا رہی تھی جو مذہبی شدت کے خلاف کام کر رہی تھی۔ لیکن شجاع کی باتوں کی پر یقین کریں تو معاملہ کچھ اور ہی ہے اور سنگین ہے- بقول شجاع گوری لنکیش کے قتل سے سات روز قبل ہی گوری لنکیش نے ای وی ایم مشین کے خلاف یا اس کے بارے میں جاننے کے لئے آر ٹی آی(RTI) داخل کی تھی۔ وہ شجاع کی ساری کہانی جانتی تھی اور وہ یہ سب باتیں اور سازشیں سب کے سامنے لانا چاہتی تھیں۔ اور یہی انکی موت کا سبب بنا۔ اور خود شجاع پر بھی یو کے(UK) میں جان لیوا حملے ہوئے۔ جسکی وجہ سے وہ وہاں ہونے والی پریس کانفرنس میں بھی نہیں گئے اور ساری گفتگو اسکائیپ کے ذریعے کی گئی۔
دیکھنے والی بات ایک یہ بھی ہے کہ اس معاملے کے کھل کر سامنے آنے کے بعد میڈیا کا کردار عجیب ہی رہا۔ کوئی بھی چینل یا اخبار سرکار پر سوال اٹھانے کے بجائے شجاع کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر رہا ہے اور اسی پر ہی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ جب کہ شجاع کی ہمت قابل احترام ہے کہ اتنے سخت ترین حالات میں بھی، اتنے جان لیوا حملوں کے باوجود بھی اس میں ہمت ہے کہ سچ کو سامنے لا سکے۔ صاف طور پر ظاہر ہے کہ اس سب سے شجاع کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں اس معاملے کو چھپانے سے کچھ فائدے ہو سکتے تھے۔ اور اگر فائدے نا بھی ہوتے تو کم از کم شجاع کو اور اسکے گھر والوں کو جان کا خطرہ تو نہ ہوتا۔ اسے اپنا ہی ملک چھوڑ کر چوروں کی طرح بھاگنا نہ پڑتا۔
میڈیا کو چاہئیے تھا کہ شجاع کی ہمت کو سراہا جاتا اور سرکار پر سوال اٹھایا جاتا۔ معاملے کی جانچ ہوتی اور اس سب قتل و غارت اور اس بے انتہا گھنونی سازش کے ذمہ داران کو بے نقاب کیا جاتا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ الٹا ہی ہوا۔ اور شاید یہی کچھ وجوہات ہیں جس کے بنا پر ورلڈ سوشل فورم (Worlf Social Forum) نے اور ورلڈ اکنامک فورم(World Economic Forum) نے ہندوستان کی میڈیا کو سب سے نیچ میڈیا کہا ہے۔ جو بہت شرم کی بات ہے، ہندوستان کے لئے بھی اور یہاں کی میڈیا کے لئے بھی.
صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کا رویہ بھی بے حد افسوس کرنے لائق نکلا. اور بی جے پی کے بارے میں تو کہنا ہی کیا. سارے کے سارے فسانے میں انہیں سب سے اہم چیز لگی یا یوں کہئیے کہ وہ نتیجے پر پہنچے تو اس نتیجے پر کہ شجاع سید پر مقدمہ چلایا جائے۔ اسی کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے جو سوال اٹھا رہا ہے. بلکہ دیکھا جائے تو سوال اٹھانا مجبوری ہے شاید۔ قتل کرنے کی سہولت ہوتی تو شاید وہی کیا جاتا۔ جیسے گوری لنکیش یا گوپی ناتھ منڈے کو کیا گیا۔ کس نے کیا اور کیوں کیا یہ پتا لگانا سی بی آئی(CBI) کا کام تھا۔ لیکن اب تک کیا پتا لگایا گیا؟
جب سرکار اور قانون اپنا کام ٹھیک سے نہ کرے تو عوام کو آگے آکر اس کام کو کرنا پڑتا ہے۔ اسی فرض کو ادا کرنے کے تحت شجاع نے يہ جرأت آمیز کام کیا۔ جسکی مذمت نہیں بلکہ تعریف ہونی چاہیے تھی۔ اسکے سوالات کو دبانا نہیں چاہئے تھا بلکہ انہیں آواز ملنی چاہئے تھی۔ اس زمانے میں کپل سِبّل ٹیلی-کام منسٹر تھے۔ کم از کم لندن میں ہونے والی اس پریس کانفرنس میں تو انہیں جانا ہی چاہئے تھا لیکن وہ نہیں گئے۔
خیر آتے ہیں ای-وی-ایم (EVM) کی جانب دوبارہ۔ ہم نے دیکھا کہ کیسے میڈیا رٹّہ سا لگایا ہوا تھا کہ ای-وی-ایم کو بلو-ٹوتھ کے ذریعے ہیک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن شجاع کچھ اور ہی بتاتے ہیں کہ ای-وی-ایم کو بلو-ٹوتھ یا وائی-فائی کے ذریعے ہیک نہیں کیا جا سکتا. سوال اب یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں کوئی ایسا شخص نہیں، کوئی ایسا انجینئر یا سائنسداں نہیں جو یہ بات جانتا ہو کہ ای-وی-ایم مشین کو کس طرح ہیک کیا جا سکتا ہے. اس طرح کے بہت سے سوال ہیں، بہت سی باتیں ہیں. سوال اٹھائے جا سکتے ہیں اور باتیں کی جا سکتی ہیں لیکن اصل کام تو سسٹم کا ہی ہے۔ اس معاملے کی جانچ سی-بی-آئی نے ہی کرنی ہے۔ ہندوستان کی میڈیا کو اپنا کردار بخوبی نبھانا چاہئے کہ عوام بھروسہ کرتی ہے اس پر۔ سرکار کو اپنا کام ایمانداری سے کرنا چاہئے کہ لوگوں نے بھروسہ کر کے اسے چنا ہے۔ اور ملک کے قانون کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیئے کہ ابھی لوگوں کا بھروسہ ملک کے آئین سے اٹھا نہیں ہے۔
شکریہ-
बाबा साहेब को पढ़कर मिली प्रेरणा, और बन गईं पूजा आह्लयाण मिसेज हरियाणा
हांसी, हिसार: कोई पहाड़ कोई पर्वत अब आड़े आ सकता नहीं, घरेलू हिंसा हो या शोषण, अब रास्ता र…