منيشا بانگر’ ايک تعارف۔
منيشا بانگر آج کے وقت ميں ايک جانا مانا نام ہے۔ جو جانا جاتا ہے اپنی تمام سماجی خدمات کے ليے۔ اور جس طرح سے اپنی زندگی کو وقف کر ديا اس معاشرہ کے ليے جس کی آواز اٹھانے والا کویٔی نہيں تھا۔ منيشا بانگر سرف ايک نام بهر نہيں ره گیا ہے بلکہ آواز بن گیا ہے’ آواز ان دبے کچلے لوگوں کی جو آزادی کے بعد بھی آزاد نہيں ہو سکے ہيں۔ جنکے پاؤں ميں مزہب کی بيڑياں تو گلے ميں جاتی کا طوق پڑا ہؤا ہے۔ جنکی بنيادی ضرورتوں يعنی صحت’ روزگار اور علاج پر بهی بات کرنے والا کوئی نہيں ہے۔ اور جو انکے ليے آواز اٹهاتا ہے اسکی آواز دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
منيشا بانگر انہیں آوازوں ميں سے ايک آواز ہيں۔ جنہيں دبانے کی کوششيں تو خوب کی گئں ليکن کامياب نہ ہو سکيں۔ آج وہ وقت ہے کہ انکے طرفدار ہوں کہ اکنے مخالف سب انہيں جانتے بھی ہيں اور مانتے بهی ہيں۔ او بی سی’ ايس سی اور پسماندہ مسلم معاشرہ انہيں سر آنکھوں پر بٹهاتا ہے۔ اور اسليے نہيں کہ منيشا بانگر نے انسے کوئی چناوی وعدہ کر ديا ہے بلکہ اسليے کہ منيشا بانگر نے ايک طويل وقت تک ان تمام لوگوں کی خدمت کی ہے۔ بامسيف جيسی تنزيم سے جڑ کر اور اپنے ڈاکٹری کے پيشے کو درکنار کر کے اپنا تمام وقت ان لوگوں کو ديا ہے۔ زمينی شکل ميں وه تمام کام کيے ہيں جو سياستداں وعده کر کر کے بھی نہيں کرتے۔
منيشا بانگر کا نام آج کسی تعارف کا محتاج نہيں ليکن انکے بارے ميں بہت سی دلچسپ باتيں ہيں جو ابھی تک منظرِ عام پر نہيں آئی ہيں۔
ہماری ايک تفصيلی گفتگو انکے ساتھ رہی جس ميں منيشا جی نے بہت اطمينان سے ہمارے سوالات کے جواب ديے ہيں۔ تحريری شکل ميں پيش ہے۔
سوال ۱ – محترمہ منيشا صاحبہ اپنے بچپن کے بارے ميں’ اپنے خانوادے اور اپنی ابتدائ تعليم کے بارے ميں تفصيل سے بتائں۔
جواب ۱ – ميرا تعلق ناگپور سے ہے۔ يہيں ميں پيدہ ہوئی اور پرورش بهی پائی۔ ميری والده امراوتی سے ہيں اور ميرے والد يہيں ناگپور سے ہيں۔ ميرے دادا جی ناگپور کی ہی ايک کالونی (مل ورکر کالونی) ميں مقیم تهے اور ايک مل ميں کام کرتے تهے۔ معاشی حالات اچهے نہیں تھے ليکن تعليمی اعتبار سے غریب نہ تهے۔ زہنی تربيت کچھ اس طرح ہوئی تھی کہ ايسے حالات ميں بهی شمالی ناگپور منسپل کارپوريشن کے وائس پريسڈينٹ رہے اور ساتھ ہی ساتھ یو نين ليڈر بهی۔ انکا نام ادب و احترام سے ليا جاتا تھا۔ پانچ بهائی اور دو بہنوں کے اس پريوار ميں علم کا ذوق و شوق شروع سے رہا۔ يہ بات ہے ۱۹۴۰ سے ۱۹۵۰ کے درميان کی۔ يہ ذکر ہے اس وقت کا جب مل ورکر کالونی ميں آے دن طرح طرح کے احتجاجی اجلاس ہوتے رہتے تهے۔ اسی کالونی ميں بڑی تعداد ميں اؤ بی سی’ ايس سی اور پسمانده معاشره کے لوگ رہتے تهے۔ کچھ عيسائی لوگ بهی۔ اور يہ تمام لوگ ڈاکٹر امبيڈکر کے خيالات سے بہت متاثر تھے۔
يہ تمام معلومات ہميں ہمارے بڑے پاپا سے ملی وہ بھی امبيڈکر کے خيالات سے بہت متاثر تھے اور اس علاقے کے پہلے آئی ايس افسر بهی تهے جو بہوجن معاشرے سے تعلق رکهتے تهے۔بڑے پاپا ان کچھ ايک لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے نوجوانوں کو کميونسٹ خيالات سے محفوظ رکها کيوں کہ يہی وہ زمانہ بهی تها جب کانگريس اور کميونسٹ خيالات کے لوگ خوب پير جمانے کی کوشِش کر رہے تهے۔
ميرے دادا جی کے متعلق بات کريں تو وہ کانگريس ميں کافی وقت تک کارپوريٹر کی حيثيت سے رہے۔ يہی وہ وقت تها کہ جب دادا جی کا پورا پريوار امبيڈکر کے خيالات اور کام سے متاثر ہو رہا تھا اور بہوجن پسماندہ معاشرہ کے ليے فکر بھی پيده ہو رہی تهی۔ اور وہی سب کچھ نصل در نصل منتقل ہوتے ہؤے ہم تک آے۔ ميرے والد اور انکے بھائيو يعنی ميرے چاچا وغيرہ کا بهی پڑھائی کی طرف ائسا ہی رجهان تها۔ اور نہ صرف پڑھائی بلکہ وه اعلیٰ خيالات بهی جو کسی بهی پڑھے لکھے شخص کو اصل ميں پڑھا لکها بناتے ہيں۔ ميرے ايک چاچا انجينير بنے اور بهيل(BHEL) ميں کافی وقت کام کيا۔ ايک چاچا سِوِل مجسٹريٹ بنے اور ميرے والد نے بھی وکالت پڑھی ليکن گھر کی زميدارياں ائسی تهيں کہ جاری نہ رکھ سکے۔ کيوں کہ دادا جی کے بعد وہ ہی گهر ميں سبسے بڑے تهے۔ اور گهر کے ہر فرد کی تمام زميدارياں انہيں پر تهيں۔ ليکن ايسے حالات ميں بھی ايل ايل ايم کيا اور افسر ہؤے۔ اور خاصہ وقت ملازمت ميں گزارنے کے بعد رٹائر ہوے۔ ميں نے اچها خاصہ وقت اپنے والد اور چاچا کی صوحبت ميں گزارا۔
ميری والده کے بارے ميں بات کريں تو وه امراوتی سے تهیں۔ ميرے نانا جنکا نام نانا صاحب ڈونگرے تها نے پہلی بی وی کے گزر جانے کے بعد دوسری شادی ميری نانی سے کی۔ ميرے نانا مہاراشٹرين تهے اور بہوجن سماج سے ہی تعلق رکھتے تهے۔ نانا صاحب جنرل پوسٹ ماسٹر تهے اور چهوٹے ماما فوج ميں ليفٹنينٹ تهے۔ گهر کے معاشی اور سماجی حالات بہت اچھے تهے اور يہی وجہ رہی کہ ميرے والدہ کی تعليم و تربيت بہت اچهی طرح ہوئی۔
۱۹۴۰ سے دھيرے دهيرے يہ خاندان ڈاکٹر امبيڈکر کے ربط ميں آنے لگا۔ ابھی تک نانا صاحب ڈونگرے بؤدھ نہيں ہؤے تهے ليکن ان ميں مدد کرنے کا ائسا جزبہ پايا جاتا تھا کہ جسکی مثال نہيں ملتی۔ نانا صاحب بہت مخلص اور انسان دوست شخص تهے۔ مدد کرنے کا ائسا جزبہ تها کہ اپنے گھر کے دروازے طلبہ کے ليے کهول رکهے تهے۔ دور دراز کے گاؤں سے بچے پڑھنے کے ليے آتے اور کئی سال انکے گهر رہ کر پڑھائی کرتے۔ انکے تين منظلہ مکان تیسرے مالے پر انہوں نے اس طرح کے انتظام کيے تهے کہ وہاں طلبہ ہی قيام اور پڑھتے تهے۔ ان تمام خدمات کے منظرِ عام پر آنے کے بعد نانا صاحب کا بہت نام ہو گیا تها۔ اور پھر يہ نام دهيرے دهيرے ڈاکٹر امبيڈکر کے کانوں ميں پڑا۔ اور پھر امبيڈکر امراوتی آيے تو نانا صاحب کی انسے ملاقات ہوئی۔ اور دونوں ايک دوسرے سے خاصے متاثر ہوۓ۔ اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ميرے چهوٹے ماما جو کہ فوج ميں ليفٹنينٹ تهے سے ملاقاتيں ہوتی رہیں۔ ملاقاتوں کے ايک طويل سلسلے کے بعد ڈاکٹر امبيڈکر نے ماما جی کو اپنے مومينٹ سے جڑنے کی دعوت دی ليکن انہوں نے معذرت طلب کی اپنی نؤکری کی مجبوری بتاتے ہوۓ۔ ليکن اپنی اہليہ کے بارے ميں بتايا کہ وه پڑھی لکهی بهی ہيں اور زہين بهی۔ ماما جی کی شادی تب نئی نئی ہوئی تهی۔ انکی اہليہ کا نام سُلوچنا ڈونگرے تها۔ سلوچنا ڈونگرے ڈاکٹر امبيڈکر سے جڑيں اور جی لگا کر سماجی کام کاج کرنے لگيں۔ اور لوگوں کو زہنی اعتبار سے مضبوط کرنے لگيں۔ عورتوں کی ايک کثير تعداد انسے متاثر تھی۔ نانا صاحب کی نظر جب ميری مامی سلوچنا ڈونگرے کے سماجی معاملات کی خبر پہنچی تو انہوں نے خوب تعريف کی اور انکے کام ميں ہاتھ بهی بٹانے لگے۔ امراوتی اور اسکے آس پاس کے علاقہ ميں خوب زور شور سے کام ہونے لگا تھا۔
جاری۔ ۔ ۔
آج کے کشمير کے حالات’ کشميريوں کی زبانی – پيٹر فريڈرک کے ساتھ
کشمير مدعہ ايک مکمل سياسی مسئلہ تها ليکن اسے ہندوستانی ميڈيا نے پوری طرح ہندو مسلم کا جام…