Home Language منيشا بانگر ايک تعرف
Language - Uncategorized - Urdu - July 9, 2019

منيشا بانگر ايک تعرف

منيشا بانگر’ ايک تعارف۔

 

منيشا بانگر آج کے وقت ميں ايک جانا مانا نام ہے۔ جو جانا جاتا ہے اپنی تمام سماجی خدمات کے ليے۔ اور جس طرح سے اپنی زندگی کو وقف کر ديا اس معاشرہ کے ليے جس کی آواز اٹھانے والا کویٔی نہيں تھا۔ منيشا بانگر سرف ايک نام بهر نہيں ره گیا ہے بلکہ آواز بن گیا ہے’ آواز ان دبے کچلے لوگوں کی جو آزادی کے بعد بھی آزاد نہيں ہو سکے ہيں۔ جنکے پاؤں ميں مزہب کی بيڑياں تو گلے ميں جاتی کا طوق پڑا ہؤا ہے۔ جنکی بنيادی ضرورتوں يعنی صحت’ روزگار اور علاج پر بهی بات کرنے والا کوئی نہيں ہے۔ اور جو انکے ليے آواز اٹهاتا ہے اسکی آواز دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

 

منيشا بانگر انہیں آوازوں ميں سے ايک آواز ہيں۔ جنہيں دبانے کی کوششيں تو خوب کی گئں ليکن کامياب نہ ہو سکيں۔ آج وہ وقت ہے کہ انکے طرفدار ہوں کہ اکنے مخالف سب انہيں جانتے بھی ہيں اور مانتے بهی ہيں۔ او بی سی’ ايس سی اور پسماندہ مسلم معاشرہ انہيں سر آنکھوں پر بٹهاتا ہے۔ اور اسليے نہيں کہ منيشا بانگر نے انسے کوئی چناوی وعدہ کر ديا ہے بلکہ اسليے کہ منيشا بانگر نے ايک طويل وقت تک ان تمام لوگوں کی خدمت کی ہے۔ بامسيف جيسی تنزيم سے جڑ کر اور اپنے ڈاکٹری کے پيشے کو درکنار کر کے اپنا تمام وقت ان لوگوں کو ديا ہے۔ زمينی شکل ميں وه تمام کام کيے ہيں جو سياستداں وعده کر کر کے بھی نہيں کرتے۔

 

منيشا بانگر کا نام آج کسی تعارف کا محتاج نہيں ليکن انکے بارے ميں بہت سی دلچسپ باتيں ہيں جو ابھی تک منظرِ عام پر نہيں آئی ہيں۔

ہماری ايک تفصيلی گفتگو انکے ساتھ رہی جس ميں منيشا جی نے بہت اطمينان سے ہمارے سوالات کے جواب ديے ہيں۔ تحريری شکل ميں پيش ہے۔

 

سوال ۱ – محترمہ منيشا صاحبہ اپنے بچپن کے بارے ميں’ اپنے خانوادے اور اپنی ابتدائ تعليم کے بارے ميں تفصيل سے بتائں۔

 

جواب ۱ – ميرا تعلق ناگپور سے ہے۔ يہيں ميں پيدہ ہوئی اور پرورش بهی پائی۔ ميری والده امراوتی سے ہيں اور ميرے والد يہيں ناگپور سے ہيں۔ ميرے دادا جی ناگپور کی ہی ايک کالونی (مل ورکر کالونی) ميں مقیم تهے اور ايک مل ميں کام کرتے تهے۔ معاشی حالات اچهے نہیں تھے ليکن تعليمی اعتبار سے غریب نہ تهے۔ زہنی تربيت کچھ اس طرح ہوئی تھی کہ ايسے حالات ميں بهی شمالی ناگپور منسپل کارپوريشن کے وائس پريسڈينٹ رہے اور ساتھ ہی ساتھ یو نين ليڈر بهی۔ انکا نام ادب و احترام سے ليا جاتا تھا۔ پانچ بهائی اور دو بہنوں کے اس پريوار ميں علم کا ذوق و شوق شروع سے رہا۔ يہ بات ہے ۱۹۴۰ سے ۱۹۵۰ کے درميان کی۔ يہ ذکر ہے اس وقت کا جب مل ورکر کالونی ميں آے دن طرح طرح کے احتجاجی اجلاس ہوتے رہتے تهے۔ اسی کالونی ميں بڑی تعداد ميں اؤ بی سی’ ايس سی اور پسمانده معاشره کے لوگ رہتے تهے۔ کچھ عيسائی لوگ بهی۔ اور يہ تمام لوگ ڈاکٹر امبيڈکر کے خيالات سے بہت متاثر تھے۔

 

يہ تمام معلومات ہميں ہمارے بڑے پاپا سے ملی وہ بھی امبيڈکر کے خيالات سے بہت متاثر تھے اور اس علاقے کے پہلے آئی ايس افسر بهی تهے جو بہوجن معاشرے سے تعلق رکهتے تهے۔بڑے پاپا ان کچھ ايک لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے نوجوانوں کو کميونسٹ خيالات سے محفوظ رکها کيوں کہ يہی وہ زمانہ بهی تها جب کانگريس اور کميونسٹ خيالات کے لوگ خوب پير جمانے کی کوشِش کر رہے تهے۔

 

ميرے دادا جی کے متعلق بات کريں تو وہ کانگريس ميں کافی وقت تک کارپوريٹر کی حيثيت سے رہے۔ يہی وہ وقت تها کہ جب دادا جی کا پورا پريوار امبيڈکر کے خيالات اور کام سے متاثر ہو رہا تھا اور بہوجن پسماندہ معاشرہ کے ليے فکر بھی پيده ہو رہی تهی۔ اور وہی سب کچھ نصل در نصل منتقل ہوتے ہؤے ہم تک آے۔ ميرے والد اور انکے بھائيو يعنی ميرے چاچا وغيرہ کا بهی پڑھائی کی طرف ائسا ہی رجهان تها۔ اور نہ صرف پڑھائی بلکہ وه اعلیٰ خيالات بهی جو کسی بهی پڑھے لکھے شخص کو اصل ميں پڑھا لکها بناتے ہيں۔ ميرے ايک چاچا انجينير بنے اور بهيل(BHEL) ميں کافی وقت کام کيا۔ ايک چاچا سِوِل مجسٹريٹ بنے اور ميرے والد نے بھی وکالت پڑھی ليکن گھر کی زميدارياں ائسی تهيں کہ جاری نہ رکھ سکے۔ کيوں کہ دادا جی کے بعد وہ ہی گهر ميں سبسے بڑے تهے۔ اور گهر کے ہر فرد کی تمام زميدارياں انہيں پر تهيں۔ ليکن ايسے حالات ميں بھی ايل ايل ايم کيا اور افسر ہؤے۔ اور خاصہ وقت ملازمت ميں گزارنے کے بعد رٹائر ہوے۔ ميں نے اچها خاصہ وقت اپنے والد اور چاچا کی صوحبت ميں گزارا۔

 

ميری والده کے بارے ميں بات کريں تو وه امراوتی سے تهیں۔ ميرے نانا جنکا نام نانا صاحب ڈونگرے تها نے پہلی بی وی کے گزر جانے کے بعد دوسری شادی ميری نانی سے کی۔ ميرے نانا مہاراشٹرين تهے اور بہوجن سماج سے ہی تعلق رکھتے تهے۔ نانا صاحب جنرل پوسٹ ماسٹر تهے اور چهوٹے ماما فوج ميں ليفٹنينٹ تهے۔ گهر کے معاشی اور سماجی حالات بہت اچھے تهے اور يہی وجہ رہی کہ ميرے والدہ کی تعليم و تربيت بہت اچهی طرح ہوئی۔

 

۱۹۴۰ سے دھيرے دهيرے يہ خاندان ڈاکٹر امبيڈکر کے ربط ميں آنے لگا۔ ابھی تک نانا صاحب ڈونگرے بؤدھ نہيں ہؤے تهے ليکن ان ميں مدد کرنے کا ائسا جزبہ پايا جاتا تھا کہ جسکی مثال نہيں ملتی۔ نانا صاحب بہت مخلص اور انسان دوست شخص تهے۔ مدد کرنے کا ائسا جزبہ تها کہ اپنے گھر کے دروازے طلبہ کے ليے کهول رکهے تهے۔ دور دراز کے گاؤں سے بچے پڑھنے کے ليے آتے اور کئی سال انکے گهر رہ کر پڑھائی کرتے۔ انکے تين منظلہ مکان تیسرے مالے پر انہوں نے اس طرح کے انتظام کيے تهے کہ وہاں طلبہ ہی قيام اور پڑھتے تهے۔ ان تمام خدمات کے منظرِ عام پر آنے کے بعد نانا صاحب کا بہت نام ہو گیا تها۔ اور پھر يہ نام دهيرے دهيرے ڈاکٹر امبيڈکر کے کانوں ميں پڑا۔ اور پھر امبيڈکر امراوتی آيے تو نانا صاحب کی انسے ملاقات ہوئی۔ اور دونوں ايک دوسرے سے خاصے متاثر ہوۓ۔ اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ميرے چهوٹے ماما جو کہ فوج ميں ليفٹنينٹ تهے سے ملاقاتيں ہوتی رہیں۔ ملاقاتوں کے ايک طويل سلسلے کے بعد ڈاکٹر امبيڈکر نے ماما جی کو اپنے مومينٹ سے جڑنے کی دعوت دی ليکن انہوں نے معذرت طلب کی اپنی نؤکری کی مجبوری بتاتے ہوۓ۔ ليکن اپنی اہليہ کے بارے ميں بتايا کہ وه پڑھی لکهی بهی ہيں اور زہين بهی۔ ماما جی کی شادی تب نئی نئی ہوئی تهی۔ انکی اہليہ کا نام سُلوچنا ڈونگرے تها۔ سلوچنا ڈونگرے ڈاکٹر امبيڈکر سے جڑيں اور جی لگا کر سماجی کام کاج کرنے لگيں۔ اور لوگوں کو زہنی اعتبار سے مضبوط کرنے لگيں۔ عورتوں کی ايک کثير تعداد انسے متاثر تھی۔ نانا صاحب کی نظر جب ميری مامی سلوچنا ڈونگرے کے سماجی معاملات کی خبر پہنچی تو انہوں نے خوب تعريف کی اور انکے کام ميں ہاتھ بهی بٹانے لگے۔ امراوتی اور اسکے آس پاس کے علاقہ ميں خوب زور شور سے کام ہونے لگا تھا۔

second part

 

۱۹۴۲ ميں ہونے والی کانفرينس پسماندہ اور بہوجن معاشره کے حق ميں ہونے والی بڑی پہل تهی۔ اور اس کانفرينس ميں عورتوں کے حقوق کےمتعلق بهی کئی مدعوں پر بات ہوئی۔ اس وقت کانگريس اور مہاتمہ گاندهی ايک طرف تهے اور مختلف خيالات رکهتے تهے۔ يعنی عورتوں کے پڑهنے لکھنے کی تو وکالت کرتے تهے ليکن اسے کام مردو کی قيادت ميں ہی کرنا ہوگا۔ اور مہاتمہ گاندھی نے خود بهی عورتوں کا استحصال ہی کيا ہے ‘حق کی تلاش’ کے نام پر۔ دانڈی مارچ کے دؤران بهی عورتوں کا کام گاندھی کے پيچھے پيچهے چلنا اور انکی مدح و ثنا کرنا ہی ہوتا تها۔ اور ايک جانب جو برہمن سماج کی عورتيں تھيں وه آزادی کی مہم سے متاثر ہو کر سامنے آئی تھیں انکی طرف سے بھی کبهی عورتوں کے حق ميں زميدارانہ ڈھنگ سے بات نہيں کی گئی۔ کانگريس بنيادی طور پر برہمن جسم و جسمانيت کے ساتھ وجود ميں آئی تهی اور اب تک اسنے وہی کيا ہے جو اس طرح کی کسی بهی پارٹی سے اميد کی جا سکتی تهي۔ کانگريس کی بڑی حصہ داری آزادی کی لڑائی ميں رہی ليکن وہ انگريزوں سے ملق کی محبت ميں نہيں لڑ رہی تهی بلکہ اسے وه حقومت اپنے ہاتھ ميں چاہيے تهی جو انگريزوں کے ہاتھ ميں تھی۔ وہ کبھی بہوجن يا پسماندہ معاشره کے حقوق ليے نہیں لڑے بلکہ ان پر حقومت کرنے اور انکا استحصال کرنے کے ليے لڑے۔

 

ايسي کسی پارٹی کے سينے پر سوار ہو کر پسماندہ اور بہوجن معاشرہ کی بات کرنا’ عورتوں کے حقوق کی وکالت کرنا اپنے آپ ميں بڑی بات تهی۔ اور طلاق کے حقوق پر’ جائداد ميں برابری کی حصہ داری پر آواز بلند کرنا ميل کے پتهر جيسا تها۔ طلاق کی بات پہلی بار اتنی کهل کر ہندوستانی معاشرہ ميں ہو رہی تهی۔ اسکے علاوہ ہندو معاشرہ ميں موجود مزہبی برائياں جو عورتوں کی حق تلفی کی بڑی وجہ تھیں پر بات ہویٔی اور مردوں کی سرپرستی کی مخالفت۔ اور زاہر ہے اس سب کی مخالفت ہونی تهي اور ہوئی بهی۔ خود کانگريس نے اس موومينٹ کی اور اس کانفرينس کی مخالفت کي۔ اس کانفرينس ميں لگبھگ ۲۸۰۰۰ عورتوں نے شرکت کی اور يہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد تھی عورتوں کی کہ وه خود اپنے حقوق کے آواز بلند کرنے سامنے آئیں۔ عورتوں کی بهيڑ کانگريس نے بهی اکٹھا کی تھی ليلن اپنے حقوق کے ليے اتنی بڑی تعداد ميں خواتين پہلی بار سامنے آئی تهیں۔ امبيڈکر نے ضرورت ديکھتے سمجهتے ہؤے کہا کہ جو بڑی کانفرينس ہوگی اسکے دو روز بعد ايک کانفرينس کا انعقاد صرف عورتوں کے متعلق کيا جائےگا۔ اور دو روز بعد وه کانفرينس ہوئی بهی۔ اور يہ کانفرينس ميری مامی سلوچنا ڈونگرے کی قيادت ميں ہوئی۔

 

يہ موومينٹ پورے ملک ميں زور شور سے چل رہا تها۔ عوام کی رائے لی گئی’ بحث و مباحثہ کيے گئے اور ہر طبقہ تک اس کام کو لے جايا گیا۔ ليکن کانگريس نے اپنی کوئی حصہ داری اس موومينٹ ميں نہيں دی بلکہ مخالفت کی۔ اس وقت کے بڑے بڑے ليڈر مخالفت پر اترے ہوۓ تھے۔ يقیناً وہ نہيں چاہتے تھے کہ عورتیں سامنے آ کر اپنے حقوق کے ليے آواز بلند کريں۔ ائسا ہونے سے عورتوں کا استحصال کرنا ناممکن ہو جاتا۔ حيرت کی بات يہ تھی اس سب ميں کہ خود جواہر لال نہرو بھی مخالف تهے’ جبکہ انکی تصوير ايک پڑھے لکهے نيتا کی تھی جو نيے ہندوستان کي بات کرتا تها۔ ڈاکٹر امبيڈکر نے عاجز آ کر اصتعفیٰ دے ديا۔ انہوں نے ساف طور پر کہا کہ ميں بنا عورتوں کو انکے حقوق دلاے اور بغير انکی حصہ داری کے ہندوستان نہيں چاہتا۔ ڈاکٹر امبيڈکر نے استعفیٰ ديا اور بہ قائده ايک مضمون لکھا کہ کیوں وہ استعفیٰ دے رہے ہيں۔

 

سلوچنا ڈونگرے کے بعد بهی نانا صاحب ڈونگرے کے خاندان کے ديگر افراد اس موومينٹ سے جڑے رہے۔ ۱۹۵۶ ميں نانا صاحب ڈونگرے نے ہندو مزہب چھوڑ ديا۔ اور بدھ مزہب اختيار کيا۔ اور انکا سوچنا يہ تھا کہ بہوجن معاشره کی غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہندو مزہب ہے۔ اس مزہب ميں سورنو کے ليے عيش و عشرت کی زندگی ہے اور انہی کی طے شدہ نچلی قوموں کے ليے ذلت اور خواري اور ہميشگی کی غلامی۔ اس مزہب کو چھوڑے بغير ہم کبھی بيڑيوں سے آزاد نہيں ہو سکتے۔ اور صرف نانا صاحب نے ہی نہیں بلکہ انکے ساتھ انکے گھر کے تمام لوگ ہندو مزہب چهوڑ کر بدھ مزہب میں آۓ۔ ہندو مزہب کی پيروی وہ پہلے بهی نہيں کرتے تھے۔ وه کبير پنتھی تهے۔ تو يہ معاملات ميری نانی کی طرف سے تھے۔

ہم سارے بهائی بہن ناگپور ميں ہی پلے بڑے۔ جيسا کہ مينے بتايا کہ ميرے والد ہی گهر کی تمام زميدارياں اٹھا رہے تهے۔ ليکن پهر بهی انہوں نے ميرے والده کو پڑھنے کے ليے بہت مدد کی۔ اور ميری والده نے بهی ايسے مشکل حالات ميں بهی ايم اے مکمل کيا اور پڑهائی جاري رکھتے ہوۓ ايم ايڈ کيا’ ايم فل کيا اور پهر پی ايچ ڈی بهی کی۔ اور ليکچرر کے اوہدے پر فائز ہوئں۔ وائس پرنسپل بھی رہیں اور پھر ناگپور کاليج سے رٹائر بھی ہوئں۔ ميرے والد اور ميری ماں دونو ہی پڑھائی کی اہميت کو اچھی طرح سمجهتے تهے۔ اور وہ جانتے تھے کہ يہ کس طرح بچے کی تربيت کرتی ہے۔ انہوں نے ہم ميں سے کسی بهایٔی بہن کو کسی برہمن ادارے ميں نہيں تعليم کے ليے نہيں بهيجا۔ ہم چاروں بھائی بہن مشنری اسکول ميں ہی پڑھے۔ اور يہ ہماری خوش بختي رہی کہ ہميں پڑھائی کے ليے جدجہد نہيں کرنی پڑی۔ ہميں وہ ہر ايک سہولت دستياب تھی جو عام طور پر لوگوں کو نہیں مل پاتی ہيں۔ ہمارے اسکول کا ماحول کافی اچها اور کھلا ہوآ تها۔ گهر اور اسکول دونو جگہ ايک جسيا ماحول ملنے کی ہی بات تهی کہ ہمیں کبهی يہ نہيں سننا پڑا کہ تم لڑکی ہو اور لڑکی ہونے کی وجہ سے يہ نہيں کر سکتيں۔ ميرا شمار ذہين بچوں ميں ہوتا تھا۔ (ہنستے ہوے بتاتی ہيں) ميں بهی عام بچوں کی طرح بہت شيطان ہؤا کرتی تهی۔ بہت سوال پوچھتی تھی اور خاص کر وہ سوال جؤ ميرے گهر کے ماحول کی وجہ سے ميرے اندر پنپے تهے۔ ميں اپنے اسکول کی نن اور اساتذه سے بہت متاثر تهی۔ ايک بات جو مجهے بہت اچهی لگتی تھی اپنے اسکول ميں بلکہ يہ ايک بڑا فرق بهی تھا مشنری اور برہمنوادی تعليمی اداروں ميں کہ مشنری اداروں ميں ہر طبقه کے بچے پڑھنے آتے تھے۔ يعنی ہندو’ مسلم’ ايس سی’ ايس ٹی’ سورن سب يہاں پڑھتے تهے جبکہ ادھر برہمن اسکولوں ميں صرف برہمن بچے پڑھتے تهے۔ ميں نے اپنے اسکول ميں ايک چهوٹے ہندوستان کو ديکھا ہے۔ يہاں مزہب کے نام پر زہر نہيں بھرا جاتا تھا بچوں کے معصوم دماغ ميں۔

 

اب جب ميں يہاں ہوں تو کچھ لوگ تعجب سے پوچھتے ہيں کہ يہاں یک کا سفر کيسے طے کيا۔ تو ميں انسے يہ کہنا چاہونگی کہ صرف معاشی سہولتیں ہی نہیں رہیں ايک شيطان بچی سے منيشا بانگر تک کے سفر ميں۔ ميرے اسکول اور گهر کا ماحول نے اہم کردار ادا کيا ہے۔ ميرے گھر ميں روک ٹوک نہيں تھی کسی بات کے ليے۔ بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی کاميابی کے ليے خود داد ملتی تهی۔ جس سے ہميشا کچھ اور بہتر کرنے ک جزبہ پيدہ ہوتا تھا۔

 

تيسرا حصہ

 

دوسرا سوال – آپ پيشے سے ڈاکٹر ہيں اور ساتھ ہی ايک سياسی رہنما بهی۔ کاليج کے دن اور موجودا مصروفيات کے بارے ميں بتائں۔

جواب – ابتدائي تعليم کے بعد ايم بی بی ايس کيا اور ايم ڈی بهی کيا۔ اسکے بعد پی جی آئی چنڈیگڑھ سے ڈی ايم (ڈاکٹريٹ ان ميڈِسن) کيا۔ يہ سارا وقت يوں تو پڑھائی ميں گزرہ ليکن يہی وه وقت بهی تها جب میں سماجی معاملات کو زمينی شکل ميں ديکھنے سمجهنے لگی تهی۔ وہ تمام مشکلات جنکا سامنا مجھے نہيں کرنا پڑا تها انکا سامنا کرتے ہوۓ نوجوانوں کو ديکهتی تهی۔ چهوآ چھوت عروج پر تھی۔ مزہب اور قوم کے نام پر لوگوں کو حکارت سے ديکھا جاتا تها اور يہ حال بڑے بڑے تعليمی اداروں کا تها۔ بس يہ کہ کہيں زيادہ تو کہيں کم تها۔ بچپن ميں جو ماحول گهر ميں ملا اسکے سبب بہت کچھ سيکهنے سمجهنے کو ملا۔ حالانکہ گهر والے ہميں ان تمام باتوں سے دور رکهتے تهے کہ ہم صرف پڑهائي پر دهيان ديں ليکن اسکے باوجود بھی بہت کچھ جانا اور سمجها۔ کيوںکہ گهر ميں جب بهی چار لؤگ ساتھ بيٹهتے تهے تو ان تمام سياسی’ سماجی معاملات پر بات ہوتی تهی۔ ہماری شام کی چاۓ ہو يا رات کا کھانا۔ بنا ان تمام باتوں کے نامکمل ہی رہتا تها۔ اسی وقت ميں ميرے ايک ماما کاشی رام جی کے ساتھ کام کر رہے تهے۔ کاشی رام جی کئی بار ناگپور آۓ ۔ مجھے ياد آتا ہے کہ ناگپور ميں بامسيف کا کوئی جلسہ تھا جہاں ميں اپنے ماما جی کے ساتھ گئی تهی۔ اس وقت ميں آٹھويں جماعت ميں پڑھ رہی تهی۔ مجھے ياد ہے کہ وہاں سے آنے کے بعد دو تین دن تک ميرے زہن ميں وه تمام باتيں گهومتی رہیں جو وہاں زيرِ بحث تهيں۔

 

مجھے ايک اور واقعه ياد آتا ہے کہ گهر کے تمام افراد بيٹھے ہوۓ تهے اور بچے بهی موجود تهے۔ ماما جی سارے بچوں سے باری باری پوچھ رہے تهے کہ آپ بڑے ہو کر کيا کرنا چاہوگے۔ مین اس وقت غالبًا گيارہويں جماعت ميں پڑھ رہی تهی يا بارہويں ميں۔ جب ميرے ماما نے مجهسے بهی يہی سوال کيا تو ميں سوال سن کر سوچ ميں پڑ گئی تو ماما جی نے سوال اور وضاحت سے کيا کہ يہ بتاؤ کہ بڑے ہو کر معاشرے کے ليے کيا کروگی۔ لوگوں کے ليے کيا کرنا چاہتی ہو۔ تو ميں نے جواب ديا کہ ابهی تو مجهے نہيں پتا کہ کيا کرونگی ليکن جو بهی کرونگی وه کچھ الگ اور بہتر کرونگی۔ حالانکہ اب سوچتی ہوں تو پاتی ہوں کہ ميرا جواب بچکانا ہی تها اور زاہر ہے کہ ايک بچہ بچکانا جواب ہی ديگا۔ ليکن ميرے جواب پر کوئی ہنسا نہيں۔ کسی نے يہ نہيں کہا کہ بهئی يہ کيا جواب ہوآ۔ (ہنستے ہوۓ) اور ميں نے اس وقت بول تو ديا ليکن بعد ميں سوچ رہی تهی کہ ميں آخر کرونگی کيا۔ اور اسکے بعد وہی سب کہ ايم بی بی ايس کرنے کی قوائد شروع ہوئی۔ اور زہن ميں ايک عجيب طرح کی اتھل بتھل نے گھر کر ليا تھا۔ ايک بے چينی کہ جس کا علاج کبهی کتابوں ميں تلاشتی تو کبهی لوگوں کے درميان۔ اور اس اتھل پتھل کا نتيجہ ہی تھا وہ واقعه کہ جسکا ذکر ميں نے کبهی کسی سے نہيں کيا۔ ليکن آج آپکو بتاونگی۔ مجهے نہیں پتا کہ يہ مجهے بتانا بهی چاہيے يا نہيں ليکن يہ واقعه ميرے دل کے بہت قريب ہے۔ اس واقعه کا مجھ پر اور ميری شخصيت پر اچھا خاصہ اثر پڑا۔ ميرے اندر کچھ اور تبديلياں آئيں اور سنجيدگی بهی۔ ميں اس واقعه کا ذکر کسی سے اسليے بهی نہيں کر سکی کیوں کہ ہمارے معاشرے ميں ہزاروں ايسے قصے کہانياں ہيں جنکا کوئی سر پير نہيں اور جو صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے ليے گڑھے گيے ہيں۔ ميں اس واقعه کی وجہ سے يہ نہيں چاہتی کہ ميری عزت اور زياده کی جاے يا مجھ سے عقيدت رکهی جاۓ۔ بس ايک زندگی بدل دينے واقعه کا ذکر کرنا چاہتی ہوں۔ تو بات يہ تهی کہ ميرے کاليج ميں ہی ايک برہمن لڑکی تهی جو پڑهنے لکهنے ميں تو اوصط درجہ کی تهی ليکن اسکی اتنی طرفداری کی جاتی تهی کہ پوچھيے مت۔ سارے اساتذا اسے اور اس جيسی کئی لڑکيوں کو اتنا بڑهاوا ديتے تهے کہ کاليج کے باقی طلبہ سوچنے پر مجبور ہو جائيں کہ کيا ہم لوگ بالکل بےکار ہيں۔ اور بڑھاوہ دينا کسی خاص شخص يا طبقہ کو اور برا ہو جاتا ہے جب آپ اسکے مدمقابل کو نيچا دکهانے کی کوشش کرتے ہيں۔ اس کاليج ميں ہميشہ ايس سی ايس ٹی’ اؤ بی سی اور پسماندہ طلبہ کو يہ سب جهيلنا پڑتا تها۔ مجهے کوئی اسليے کچھ نہيں کہتا تها کہ ايک تو ميں پڑھائی ميں بہت تيز تهی اور دوسرا يہ کہ مير انتخاب کسی کوٹے کے تحت نہيں ہوآ تها۔ ميرے پاس اکثر گاؤں قصبوں کے طلبہ شکايت لے کر آتے تھے۔ کیوں کہ ميں نے کاليج ميں ہونے والے اس نازيبہ اور غير مساواتی رويہ کی مخالفت شروع کر دی تھی۔ اس سب کے دوران مجھے ايک روز خواب آتا ہے کہ ميں کسی اندھيرے کمرے ميں ہوں اور وه برہمن لڑکی بهی ميرے ساتھ ہے۔ اور ميں سوچ رہی ہوں کہ يہ ميرا پيچھا يہاں بهی نہيں چهوڑ رہی۔ میں پريشان ہوں اور اتنے ميں ديکھتی ہوں کہ اس اندهيرے کمرے کا دروازہ کهلتا ہے اور ڈاکٹر امبيڈکر داخل ہوتے ہيں۔ اب ميں چونک جاتی ہوں اور حيرت سے انہيں ديکهتی ہوں۔ ميرے ساتھ والی لڑکی کے اوپر کوئی فرق نہيں پڑتا اور وه اپنی جگہ کهڑی رہتی ہے۔ اور ميں اندر ہی اندر سوچ رہی ہوں کہ ان سے کيا کہوں۔ ميں اس لڑکی کی جانب سواليا نظروں سے ديکهتی ہوں ليکن اسکے چہرے پر عجيب غصہ والے تاثرات ہيں۔ تو ميں اس سے دھيان ہٹا کر ڈاکٹر امبيڈکر کے پيروں کے پاس جا کر بيٹھ جاتی ہوں۔ وہ ميری جانب ديکھتے ہيں اور مجھسے مخاطب ہو کر کہتے ہيں کہ منيشا آگے چل کر تمہيں ہی سب کچھ سمبهالنا ہے۔ اور ميں تزبزب ؤ حيرت ميں انسے کچھ کہہ بهی نہيں پاتی۔ اور ميری آنکھ کھل جاتی ہے۔ اور ميں دير تک اس خواب کے بارے ميں سوچتی رہتی ہوں اور اس رات کے بعد بهی گاہے بہ گاہے سوچنے لگتی ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

آج کے کشمير کے حالات’ کشميريوں کی زبانی – پيٹر فريڈرک کے ساتھ

کشمير مدعہ ايک مکمل سياسی مسئلہ تها ليکن اسے ہندوستانی ميڈيا نے پوری طرح ہندو مسلم کا جام…