منيشا بانگر’ ايک تعرف
۱۹۴۲ ميں ہونے والی کانفرينس پسماندہ اور بہوجن معاشره کے حق ميں ہونے والی بڑی پہل تهی۔ اور اس کانفرينس ميں عورتوں کے حقوق کےمتعلق بهی کئی مدعوں پر بات ہوئی۔ اس وقت کانگريس اور مہاتمہ گاندهی ايک طرف تهے اور مختلف خيالات رکهتے تهے۔ يعنی عورتوں کے پڑهنے لکھنے کی تو وکالت کرتے تهے ليکن اسے کام مردو کی قيادت ميں ہی کرنا ہوگا۔ اور مہاتمہ گاندھی نے خود بهی عورتوں کا استحصال ہی کيا ہے ‘حق کی تلاش’ کے نام پر۔ دانڈی مارچ کے دؤران بهی عورتوں کا کام گاندھی کے پيچھے پيچهے چلنا اور انکی مدح و ثنا کرنا ہی ہوتا تها۔ اور ايک جانب جو برہمن سماج کی عورتيں تھيں وه آزادی کی مہم سے متاثر ہو کر سامنے آئی تھیں انکی طرف سے بھی کبهی عورتوں کے حق ميں زميدارانہ ڈھنگ سے بات نہيں کی گئی۔ کانگريس بنيادی طور پر برہمن جسم و جسمانيت کے ساتھ وجود ميں آئی تهی اور اب تک اسنے وہی کيا ہے جو اس طرح کی کسی بهی پارٹی سے اميد کی جا سکتی تهي۔ کانگريس کی بڑی حصہ داری آزادی کی لڑائی ميں رہی ليکن وہ انگريزوں سے ملق کی محبت ميں نہيں لڑ رہی تهی بلکہ اسے وه حقومت اپنے ہاتھ ميں چاہيے تهی جو انگريزوں کے ہاتھ ميں تھی۔ وہ کبھی بہوجن يا پسماندہ معاشره کے حقوق ليے نہیں لڑے بلکہ ان پر حقومت کرنے اور انکا استحصال کرنے کے ليے لڑے۔
ايسي کسی پارٹی کے سينے پر سوار ہو کر پسماندہ اور بہوجن معاشرہ کی بات کرنا’ عورتوں کے حقوق کی وکالت کرنا اپنے آپ ميں بڑی بات تهی۔ اور طلاق کے حقوق پر’ جائداد ميں برابری کی حصہ داری پر آواز بلند کرنا ميل کے پتهر جيسا تها۔ طلاق کی بات پہلی بار اتنی کهل کر ہندوستانی معاشرہ ميں ہو رہی تهی۔ اسکے علاوہ ہندو معاشرہ ميں موجود مزہبی برائياں جو عورتوں کی حق تلفی کی بڑی وجہ تھیں پر بات ہویٔی اور مردوں کی سرپرستی کی مخالفت۔ اور زاہر ہے اس سب کی مخالفت ہونی تهي اور ہوئی بهی۔ خود کانگريس نے اس موومينٹ کی اور اس کانفرينس کی مخالفت کي۔ اس کانفرينس ميں لگبھگ ۲۸۰۰۰ عورتوں نے شرکت کی اور يہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد تھی عورتوں کی کہ وه خود اپنے حقوق کے آواز بلند کرنے سامنے آئیں۔ عورتوں کی بهيڑ کانگريس نے بهی اکٹھا کی تھی ليلن اپنے حقوق کے ليے اتنی بڑی تعداد ميں خواتين پہلی بار سامنے آئی تهیں۔ امبيڈکر نے ضرورت ديکھتے سمجهتے ہؤے کہا کہ جو بڑی کانفرينس ہوگی اسکے دو روز بعد ايک کانفرينس کا انعقاد صرف عورتوں کے متعلق کيا جائےگا۔ اور دو روز بعد وه کانفرينس ہوئی بهی۔ اور يہ کانفرينس ميری مامی سلوچنا ڈونگرے کی قيادت ميں ہوئی۔
يہ موومينٹ پورے ملک ميں زور شور سے چل رہا تها۔ عوام کی رائے لی گئی’ بحث و مباحثہ کيے گئے اور ہر طبقہ تک اس کام کو لے جايا گیا۔ ليکن کانگريس نے اپنی کوئی حصہ داری اس موومينٹ ميں نہيں دی بلکہ مخالفت کی۔ اس وقت کے بڑے بڑے ليڈر مخالفت پر اترے ہوۓ تھے۔ يقیناً وہ نہيں چاہتے تھے کہ عورتیں سامنے آ کر اپنے حقوق کے ليے آواز بلند کريں۔ ائسا ہونے سے عورتوں کا استحصال کرنا ناممکن ہو جاتا۔ حيرت کی بات يہ تھی اس سب ميں کہ خود جواہر لال نہرو بھی مخالف تهے’ جبکہ انکی تصوير ايک پڑھے لکهے نيتا کی تھی جو نيے ہندوستان کي بات کرتا تها۔ ڈاکٹر امبيڈکر نے عاجز آ کر اصتعفیٰ دے ديا۔ انہوں نے ساف طور پر کہا کہ ميں بنا عورتوں کو انکے حقوق دلاے اور بغير انکی حصہ داری کے ہندوستان نہيں چاہتا۔ ڈاکٹر امبيڈکر نے استعفیٰ ديا اور بہ قائده ايک مضمون لکھا کہ کیوں وہ استعفیٰ دے رہے ہيں۔
سلوچنا ڈونگرے کے بعد بهی نانا صاحب ڈونگرے کے خاندان کے ديگر افراد اس موومينٹ سے جڑے رہے۔ ۱۹۵۶ ميں نانا صاحب ڈونگرے نے ہندو مزہب چھوڑ ديا۔ اور بدھ مزہب اختيار کيا۔ اور انکا سوچنا يہ تھا کہ بہوجن معاشره کی غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہندو مزہب ہے۔ اس مزہب ميں سورنو کے ليے عيش و عشرت کی زندگی ہے اور انہی کی طے شدہ نچلی قوموں کے ليے ذلت اور خواري اور ہميشگی کی غلامی۔ اس مزہب کو چھوڑے بغير ہم کبھی بيڑيوں سے آزاد نہيں ہو سکتے۔ اور صرف نانا صاحب نے ہی نہیں بلکہ انکے ساتھ انکے گھر کے تمام لوگ ہندو مزہب چهوڑ کر بدھ مزہب میں آۓ۔ ہندو مزہب کی پيروی وہ پہلے بهی نہيں کرتے تھے۔ وه کبير پنتھی تهے۔ تو يہ معاملات ميری نانی کی طرف سے تھے۔
ہم سارے بهائی بہن ناگپور ميں ہی پلے بڑے۔ جيسا کہ مينے بتايا کہ ميرے والد ہی گهر کی تمام زميدارياں اٹھا رہے تهے۔ ليکن پهر بهی انہوں نے ميرے والده کو پڑھنے کے ليے بہت مدد کی۔ اور ميری والده نے بهی ايسے مشکل حالات ميں بهی ايم اے مکمل کيا اور پڑهائی جاري رکھتے ہوۓ ايم ايڈ کيا’ ايم فل کيا اور پهر پی ايچ ڈی بهی کی۔ اور ليکچرر کے اوہدے پر فائز ہوئں۔ وائس پرنسپل بھی رہیں اور پھر ناگپور کاليج سے رٹائر بھی ہوئں۔ ميرے والد اور ميری ماں دونو ہی پڑھائی کی اہميت کو اچھی طر
آج کے کشمير کے حالات’ کشميريوں کی زبانی – پيٹر فريڈرک کے ساتھ
کشمير مدعہ ايک مکمل سياسی مسئلہ تها ليکن اسے ہندوستانی ميڈيا نے پوری طرح ہندو مسلم کا جام…