Home Uncategorized ناگپور سنسديہ علاقے کی اقلیت میں بھی زبردست مقبولیت بٹور رہی ہیں منیشا بانگر
Uncategorized - March 30, 2019

ناگپور سنسديہ علاقے کی اقلیت میں بھی زبردست مقبولیت بٹور رہی ہیں منیشا بانگر

By- Naeem Sharmad ~

ناگپور سنسدیہ علاقے سے بھاجپا کے نتن گڈکری کے ہوش اڑا دینے والی پیپلس پارٹی آف انڈیا کی امیدوار ڈاکٹر منيشا بانگر کو الپ سنکھیک جماعتوں کی پرزور حامی مل رہی ہے۔ منیشا بانگر تمام بہوجن سماج کے ساتھ اقلیت خاص طور پر مسلمانوں اور سکھوں میں مضبوط پکڑ رکھتی ہیں۔

۱۱ اپریل کو ہونے والے چناؤ کے مدنظر منیشا ان دنوں زوردار چناؤ عمل میں مشغول ہیں۔ مسلمان، سکھ، او بی سی اور انوسوچت جاتیوں کے ہلکے سے ملے اس بات سے مسرور منیشا بانگر نے آخر اقلیتوں میں اتنی مضبوط پہچان کیسے بنائی ہے، یہ جاننا بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔

آئیے یہاں جانتے ہیں که کیسے منیشا نے مسلموں اور سکھوں میں مقبولیت حاصل کی۔

ساوتری بائی پھولے نے فاطمہ شیخ کی شرکت سے وطن کا پہلا بچیوں کا سکول شروع کرکے جس بہوجن شکشا انقلاب کے روایت کی شروعات کی تھی اسی روایت کو ڈا۔ منیشا بانگر آگے بڑھا رہی ہیں۔

منیشا کہتی ہیں “اس دور میں اکشر گيان ہی پہلی ضروت تھی، تب ساوتری بائی پھولے نے فاطمہ شیخ کے ساتھ مل کر بچیوں کے لئے پہلا اسکول کھولا تھا۔ تب سے اب تک ڈیڑھ صدی کا فاصلہ ہم نے طے کر لیا ہے، اب ہمیں اکشر گیان کے آگے کا سفر طے کرنا ہے۔ بہوجن سماج میں اب معاشرتی سياسی معلومات کی لؤ روشن کرنے کا وقت ہے اسلئے ہم یہ کام ملکی سطح پر کر رہے ہیں”۔

منیشا نے اپنی ان تمام کوششوں کی وجہ سے انوسوچت جاتی، جنجاتی، مسلم اور سکھ جماعت میں بڑی مقبولیت حاصل کی ہے۔ منیشا مسلم عورتوں پر بقول بھاجپا سرکار، جبراً طلاق بل تھوپنے کے خلاف مکھر آواز بن کر ابھری تھی۔ انہوں نے دیش بھر میں اقلیتوں کے مجلسوں میں جا کر انہیں انکے مذہبی حق کے لئے آگاہ کیا اور مسلم عورتوں کے خلاف استحصال طلاق بل کے لئے آگاہ کرنے کی مہم چھیڑی۔ منیشا کی اس مہم نے انہیں مسلم سماج میں کافی مقبولیت دلائی۔ بامسیپھ و مولنواسی سنگھ سریکھے مختلف ساماجک اور سياسي ٹولیوں کی بدولت ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ مرکز کی بھاجپا سرکار طلاق بل کو سنسد سے لاگو کروا پانے میں ناکام رہی۔

منیشا نے نہ صرف انوسوچت جاتی، جنجاتی، او بی سی اور مسلموں کے لئے جدوجہد کی ہے بلکہ وہ سکھوں کی ساماجک، تہذیبی اور مالیتی طور پر غلامی کے مورچے پر بھی پوری طاقت کے ساتھ لڑائیاں لڑتی رہی ہیں۔
انکے ان کوششوں کو ملی منظوری کی ہی بانگی ہے که انہیں ۲۰۱۸ میں کنیڈا کے برامپٹن گردوارے سے ہزاروں سکھو کی تاکید کرنے کا نیوتا آیا۔ اتنا ہی نہیں، انکے ایسے ہی کوششوں کا احترام کرنے کے لئے نومبر ۲۰۱۷ میں امریکہ کے کیلیفورنیا کے مینٹیسا سٹی کے میئر نے گلوبل بہوجن ایوارڈ دینے کے لئے انہیں نیوتا دیا۔

خاص بات چیت میں منیشا کہتی ہیں، “سماج کا سمپورن وکاس تبھی سمبھو ہے جب ہم پسماندا معاشرے کے ساتھ انصاف اور مساوات محيہ کرایا جائے۔ لیکن افسوس کہ برہمنوادی نظام نے انوسوچت جاتیوں اور او بی سی کی طرح الپ سنکھیک سمودایوں کو بھی اپنے ظلم کا شکار بنایا۔ اسکا يتنجہ یہ ہے کہ آج بھی یہ معاشرہ معاشی اور علمی بے مساواتی کے شکار ہیں۔ برہمنوادی شوشن کے خلاف تمام بہوجن (جسمیں او بی سی، ایس سی، ایس ٹی و الپ سنکھیک سب شامل ہیں) کو اپنی ساجھا قؤت سے اپنے دشمنوں کو ہرانا ہے، ہم پوری طرح متمعن ہیں کہ موجودہ لوکسبھا چناؤ میں ناگپور کا بہوجن سماج برہمنوادی طاقتوں کو سبق سکھاییگا”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

बाबा साहेब को पढ़कर मिली प्रेरणा, और बन गईं पूजा आह्लयाण मिसेज हरियाणा

हांसी, हिसार: कोई पहाड़ कोई पर्वत अब आड़े आ सकता नहीं, घरेलू हिंसा हो या शोषण, अब रास्ता र…