روہيت کی خودکشی يا نظام کا قتل
By- Naeem ~
کسی شخص کا خودکشی نامہ پڑھنا آپنے آپ ميں کچھ پر مسرت احساسات کی خودکشی کرنے جيسا ہی ہے۔ ليکن جب روہيت ويمولا کا خودکشی نامہ پڑھا جاتا ہے تو زہن و دل پر ايک ہيجان سا طاری ہو جاتا ہے۔طبیعت ميں عجیب سی بےزاری گھر کر ليتی ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ جو طالب علم امبيڈکر سينٹرل يونيورسيٹی سے جے۔ آر۔ ايف پاس کر کے پی ايچ ڈی کرنے آیا تھا ايسا کيا ہوا اسکے ساتھ کہ وه اپنے سماجی اور سياسی نظام سے بلکہ خود سے بھی اس
درجہ بیزار ہو گیا کہ اسے خودکشی ہی اخري راستہ لگا۔ وہ يے سمجھانے لگا لوگوں کو کہ وه جینے سے زیاده مرنے ميں خوش ہے۔
ہالانکہ روہیت نے اپنے خط ميں صاف صاف لکھا ہے کہ اسکی موت کے بعد کسی کو پريشان نہ کيا جاے اور اسکی موت کے ليے زمیدار بھی وہ خود ہے ليکن ہر خودکشی کے پيچھے کوي نہ کوي پختہ وجہ ہوتی ہے۔ ہر خودکشی کرنے والا جانتا ہوتا ہے کہ يے اس سے سرزد ہونے والا آخری عمل ہے۔
روہيت کے متعلق بہت سی اچھی بری باتیں ہو چکی ہيں۔ سياسی لوگوں نے اپنے مفادات پورے کيے اور ميڈيا نے اپنے۔ ليکن کیا روہيت جيسے لوگ بھی بالکل ايسے ہی سوچتے ہونگے۔ کيا روہيت نے خودکشی صرف اسليے کی ہوگی کيونکہ وہ جینے سے بے زار ہو چکا تھا یا کہ صرف اسليے کہ وہ ہار گیا تھا۔ نہیں! ايسا ہرگز نہيں ہے۔ دراصل روہيت نے بھگت سنگھ کی طرح ہی ايک بم پھوڑا ہے اور يے بم خود کو مارنے کے ليے نہیں بلکہ اسليے پھوڑا گیا کہ اسکی آواز ايک سويے ہؤے نظام ميں جينے والے لوگوں کے وه کان کھول سکے جو اب تک صرف تقريروں کا شور ہی سن رہے تھے۔
ليکن روہيت کی موت کے ساتھ ہی شرؤع ہؤا ايک دوسرے پر الزام لگانے کا دؤر۔ صاحب اقتدار خود کو بچانے ميں تو اپؤزيشن الزامات لگانے ميں مصروف ہے۔ کوی سوال اٹھانے والا نہیں کہ تعلیمی اداروں ميں سياسی دخل اندازياں کیوں۔ ان تعليمی اداروں کے ذریعے وؤٹ بينک بڑھانے کی سياست کب رکيگی۔ اور کب اس طرح کے حادثات پر ہونے والی سياست روکيگی۔ اور روہيت کؤي پہلا معاملہ نہیں تھا جس کی موت بلکہ خودکشی پر سياست ہو رہی ہے۔ روہيت نام کے اس پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے طلباء پر بھی خوب سياست کھيلی جا رہی ہے۔ بيان بازياں اور الزامات کا گندا کھيل۔ کاليج کے خوب دورے کيے جا رہے ہیں اور اپنا وؤٹ بينک مضبوط کيا جا رہا ہے۔ یہ سب نہایت شرم کی بات ہے۔ آگر يہ سياسی رہنما نظام ميں کوی تبديلي نہيں لا سکتے یا ايسے حادثات سے گزرنے والے طلباء یا انکے گھر والوں کے ليے کچھ کر نہيں سکتے تو کم از کم ايسی غليظ سياست سے بھی دور رہيں۔
روہيت ايک دلت لڑکا تھا اور ہم ديکھ رہے ہيں کہ کس طرح کی تبديلياں دلت اور پسمانده طبقے کے لوگوں ميں آ رہی ہيں۔ اب يہ پڑھ رہے ہیں اور ہر شعبہ ميں سابت قدم بھي رہے ہيں۔ ليکن معاشره بنيادی طور پر ابھی بھی قبول نہيں کر پا رہا ہے اس طبقے ۔ اور نہ صرف معاشره بلکہ اسکول اور کاليج کے نصاب ميں بھی آج تک قوم پرستی کا احتجاج کرنے والے لوگوں کو نہیں پڑھایا جاتا ہے۔ نظر انداز کيا جاتا ہے۔ اور اس دؤر ميں بھي زمينی طور دلت اور پسماندہ طبقے کے ليے کام کرنے والوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ليکن باوجود اس سب کے کچھ تبديلياں تو ديکھنے کو ملتے ہيں۔ پہلے جن اداروں اور طلبه کے پڑھنے والے کمرے کی ديواروں پر مارکس یا لينين کی تصاوير ملتی تھيں اب جیوتبا پھولے یا بھيم راؤ امبيڈکر کی تصويريں ديکھنے کو مل جاتی ہيں۔ ليکن بحث ؤ مباحثوں سے اب بھی يے موضوعات دور ہيں۔
روہيت کے آخري خط ميں اسنے يہی لکھا بھی کہ وہ آجز آ چکا ہے اپنے سماجی اور سياسي نظام سے اور آنکھيں موندے ہؤے رہنماؤں سے۔ وه آجز آ چکا تھا اسکے ساتھ ہونے والے بے مساواتی رويہ سے۔ اسکی گھٹن کا سبب تھا وه معاشره جو خود کو صرف اسليے دوسروں سے افضل سمجھتا ہے کيونکہ وه سيد یا براہمن خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ حسب نسب کی پرستش کرنے والے ذہن اسکے ذہن سے ميل نہ کھا سکے۔ اور یہ حالات آي ۔آي ۔ٹي اور آي۔ آي ۔ايم جيسے بڑے اداروں کے بھی ہيں۔
افسوس کی بات ہے کہ جب بھی پسمانده یا دلت معاشرے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص پر ظلم ہوتا ہے تو پوليس غير زمدارانہ ڈھنگ سے معاملات ديکھتی ہے اور اکثر ديکھتی ہی نہيں ہے۔ اس طرح کی خبريں ہمارے رہنماؤں تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ ديتی ہيں۔ روہيت والے معاملے ميں بھی لاپرواہی صاف طور سے سامنے رکھی ہوي ہے۔
روہيت پر اے ۔بی۔ وي۔ پي کےليڈر اين سوشيل پر حملے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ۵ اگست ۲۰۱۵ حيدرآباد وی وی نے روہيت کے ساتھ ساتھ ۴ اور طلباء کے خلاف ايک تنظیم بنايی۔ مرکزی وزير مملکت بنڈارؤ دتاتريے نے اسکے متعالق ۱۸ اگست ۲۰۱۵ کؤ مانو وکاس منترالے کو خط بھی لکھا۔ اور نتيجه يہ ہوآ کہ روہيت سميت پانچوں طلباء کو کاليج سے برخواست کر ديا گيا اور ۳ جنوری ۲۰۱۶ کو اس پر مہر لگ گئی ۔ روہيت نے کافی کوشش کی ليکن کسی بھی طرح کی مدد نہ ملنے سے مايوس ہو کر خودکشی کر لی۔ روہيت کی خودکشی کے ليے کسی ايک شخص کو زمدار نہيں ٹہرایا جا سکتا ليکن ديکھا جاے تو کاليج کے کلپتی نے اگر معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہؤے سنجيدگی سے کؤي قدم اٹھايا ہؤتا تو شاید روہيت آج زنده ہوتا۔
روہيت کے معاشي حالات اچھے نہيں تھے ليکن وه زہين طلباء میں سے تھا۔ اسکي اسکالرشپ نہيں مل رہی تھی اس لئے دؤستوں سے پيسے لے کر گزر بسر کر رہا تھا۔ اور پھر یہ سارے معاملات جس ميں اسے نہ تو کسی طرح کي مدد ہی مل سکی نہ توجہ جو اسکي خودکشی کا سبب بنی۔
اس معاملے کی جانچ ابھی چل رہی ہے’ اسکا اے۔ بي۔ وي۔ پي جسے بھاجپا نے شہ دي ہوي ہے سے جھگڑا اور اسکے بعد اسکا کاليج سے نکالا جانا اور اسکالرشپ کا رک جانا یہ سب غور طلب ہے۔ روہيت اب نہيں رہا ليکن روہيت ايک سبق ہے ديکھنے سننے اور سمجھنے والوں کے ليے۔ تبديلیاں اب بھی لائ جا سکتي ہے۔ بس ضرورت ہے تو آگے آنے کی۔ اس ترح کی وارداتوں پر بؤلنے کی’ لکھنے کی
बाबा साहेब को पढ़कर मिली प्रेरणा, और बन गईं पूजा आह्लयाण मिसेज हरियाणा
हांसी, हिसार: कोई पहाड़ कोई पर्वत अब आड़े आ सकता नहीं, घरेलू हिंसा हो या शोषण, अब रास्ता र…