घर भाषा मनीषा बांगर’ मला माहीत आहे
भाषा - Uncategorized - उर्दू - जुलै 9, 2019

मनीषा बांगर’ मला माहीत आहे

 

 

दुसरा प्रश्न – آپ پيشے سے ڈاکٹر ہيں اور ساتھ ہی ايک سياسی رہنما بهی۔ کاليج کے دن اور موجودا مصروفيات کے بارے ميں بتائں۔

جوابابتدائي تعليم کے بعد ايم بی بی ايس کيا اور ايم ڈی بهی کيا۔ اسکے بعد پی جی آئی چنڈیگڑھ سے ڈی ايم (ڈاکٹريٹ ان ميڈِسن) کيا۔ يہ سارا وقت يوں تو پڑھائی ميں گزرہ ليکن يہی وه وقت بهی تها جب میں سماجی معاملات کو زمينی شکل ميں ديکھنے سمجهنے لگی تهی۔ وہ تمام مشکلات جنکا سامنا مجھے نہيں کرنا پڑا تها انکا سامنا کرتے ہوۓ نوجوانوں کو ديکهتی تهی۔ چهوآ چھوت عروج پر تھی۔ مزہب اور قوم کے نام پر لوگوں کو حکارت سے ديکھا جاتا تها اور يہ حال بڑے بڑے تعليمی اداروں کا تها۔ بس يہ کہ کہيں زيادہ تو کہيں کم تها۔ بچپن ميں جو ماحول گهر ميں ملا اسکے سبب بہت کچھ سيکهنے سمجهنے کو ملا۔ حالانکہ گهر والے ہميں ان تمام باتوں سے دور رکهتے تهے کہ ہم صرف پڑهائي پر دهيان ديں ليکن اسکے باوجود بھی بہت کچھ جانا اور سمجها۔ کيوںکہ گهر ميں جب بهی چار لؤگ ساتھ بيٹهتے تهے تو ان تمام سياسیسماجی معاملات پر بات ہوتی تهی۔ ہماری شام کی چاۓ ہو يا رات کا کھانا۔ بنا ان تمام باتوں کے نامکمل ہی رہتا تها۔ اسی وقت ميں ميرے ايک ماما کاشی رام جی کے ساتھ کام کر رہے تهے۔ کاشی رام جی کئی بار ناگپور آۓ ۔ مجھے ياد آتا ہے کہ ناگپور ميں بامسيف کا کوئی جلسہ تھا جہاں ميں اپنے ماما جی کے ساتھ گئی تهی۔ اس وقت ميں آٹھويں جماعت ميں پڑھ رہی تهی۔ مجھے ياد ہے کہ وہاں سے آنے کے بعد دو تین دن تک ميرے زہن ميں وه تمام باتيں گهومتی رہیں جو وہاں زيرِ بحث تهيں۔

 

مجھے ايک اور واقعه ياد آتا ہے کہ گهر کے تمام افراد بيٹھے ہوۓ تهے اور بچے بهی موجود تهے۔ ماما جی سارے بچوں سے باری باری پوچھ رہے تهے کہ آپ بڑے ہو کر کيا کرنا چاہوگے۔ مین اس وقت غالبًا گيارہويں جماعت ميں پڑھ رہی تهی يا بارہويں ميں۔ جب ميرے ماما نے مجهسے بهی يہی سوال کيا تو ميں سوال سن کر سوچ ميں پڑ گئی تو ماما جی نے سوال اور وضاحت سے کيا کہ يہ بتاؤ کہ بڑے ہو کر معاشرے کے ليے کيا کروگی۔ لوگوں کے ليے کيا کرنا چاہتی ہو۔ تو ميں نے جواب ديا کہ ابهی تو مجهے نہيں پتا کہ کيا کرونگی ليکن جو بهی کرونگی وه کچھ الگ اور بہتر کرونگی۔ حالانکہ اب سوچتی ہوں تو پاتی ہوں کہ ميرا جواب بچکانا ہی تها اور زاہر ہے کہ ايک بچہ بچکانا جواب ہی ديگا۔ ليکن ميرے جواب پر کوئی ہنسا نہيں۔ کسی نے يہ نہيں کہا کہ بهئی يہ کيا جواب ہوآ۔ (ہنستے ہوۓ) اور ميں نے اس وقت بول تو ديا ليکن بعد ميں سوچ رہی تهی کہ ميں آخر کرونگی کيا۔ اور اسکے بعد وہی سب کہ ايم بی بی ايس کرنے کی قوائد شروع ہوئی۔ اور زہن ميں ايک عجيب طرح کی اتھل بتھل نے گھر کر ليا تھا۔ ايک بے چينی کہ جس کا علاج کبهی کتابوں ميں تلاشتی تو کبهی لوگوں کے درميان۔ اور اس اتھل پتھل کا نتيجہ ہی تھا وہ واقعه کہ جسکا ذکر ميں نے کبهی کسی سے نہيں کيا۔ ليکن آج آپکو بتاونگی۔ مجهے نہیں پتا کہ يہ مجهے بتانا بهی چاہيے يا نہيں ليکن يہ واقعه ميرے دل کے بہت قريب ہے۔ اس واقعه کا مجھ پر اور ميری شخصيت پر اچھا خاصہ اثر پڑا۔ ميرے اندر کچھ اور تبديلياں آئيں اور سنجيدگی بهی۔ ميں اس واقعه کا ذکر کسی سے اسليے بهی نہيں کر سکی کیوں کہ ہمارے معاشرے ميں ہزاروں ايسے قصے کہانياں ہيں جنکا کوئی سر پير نہيں اور جو صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے ليے گڑھے گيے ہيں۔ ميں اس واقعه کی وجہ سے يہ نہيں چاہتی کہ ميری عزت اور زياده کی جاے يا مجھ سے عقيدت رکهی جاۓ۔ بس ايک زندگی بدل دينے واقعه کا ذکر کرنا چاہتی ہوں۔ تو بات يہ تهی کہ ميرے کاليج ميں ہی ايک برہمن لڑکی تهی جو پڑهنے لکهنے ميں تو اوصط درجہ کی تهی ليکن اسکی اتنی طرفداری کی جاتی تهی کہ پوچھيے مت۔ سارے اساتذا اسے اور اس جيسی کئی لڑکيوں کو اتنا بڑهاوا ديتے تهے کہ کاليج کے باقی طلبہ سوچنے پر مجبور ہو جائيں کہ کيا ہم لوگ بالکل بےکار ہيں۔ اور بڑھاوہ دينا کسی خاص شخص يا طبقہ کو اور برا ہو جاتا ہے جب آپ اسکے مدمقابل کو نيچا دکهانے کی کوشش کرتے ہيں۔ اس کاليج ميں ہميشہ ايس سی ايس ٹیاؤ بی سی اور پسماندہ طلبہ کو يہ سب جهيلنا پڑتا تها۔ مجهے کوئی اسليے کچھ نہيں کہتا تها کہ ايک تو ميں پڑھائی ميں بہت تيز تهی اور دوسرا يہ کہ مير انتخاب کسی کوٹے کے تحت نہيں ہوآ تها۔ ميرے پاس اکثر گاؤں قصبوں کے طلبہ شکايت لے کر آتے تھے۔ کیوں کہ ميں نے کاليج ميں ہونے والے اس نازيبہ اور غير مساواتی رويہ کی مخالفت شروع کر دی تھی۔ اس سب کے دوران مجھے ايک روز خواب آتا ہے کہ ميں کسی اندھيرے کمرے ميں ہوں اور وه برہمن لڑکی بهی ميرے ساتھ ہے۔ اور ميں سوچ رہی ہوں کہ يہ ميرا پيچھا يہاں بهی نہيں چهوڑ رہی۔ میں پريشان ہوں اور اتنے ميں ديکھتی ہوں کہ اس اندهيرے کمرے کا دروازہ کهلتا ہے اور ڈاکٹر امبيڈکر داخل ہوتے ہيں۔ اب

प्रतिक्रिया व्यक्त करा

आपला ई-मेल अड्रेस प्रकाशित केला जाणार नाही. आवश्यक फील्डस् * मार्क केले आहेत

हे देखील तपासा

आज काश्मीर’ काश्मिरी तोंडी – पीटर फ्रेडरीक सह

काश्मिर हा मुद्दा हा पूर्णपणे राजकीय मुद्दा होता परंतु तो हिंदू माध्यमांच्या मुद्दय़ावरून भारतीय मीडियाने पूर्णपणे व्यापला होता.…