Uncategorized - July 9, 2019

قوم پرستي ايک زہر ہے جو لوگوں کے زہن و دل ميں اس طرح گهل گیا ہے کہ وہ کسی پايل تڑوی’ روہت ويملا يا متهو کرشنا کو اپنے ساتھ چلتے نہيں ديکھ سکتے۔ انہيں يہ لگنے لگتا ہے کہ پچھڑی قوموں کے لوگ اس قابل نہيں ہوتے کہ انکے ساتھ پڑھ سکيں يا کام کر سکيں۔ انکی انا کبھی برداشت نہيں کر پاتی کہ کوئی نچلی قوم کا شخص انکے مد مقابل آۓ۔ اسی زہنيت کے مارے ہوۓ لوگ بہوجن اور پسماندہ طبقه سے تعلق رکهنے والے لوگوں پر ظلم کرنے کا موقع نہيں چهوڑتے۔ اور اس درجہ ظلم کرتے ہيں کہ مظلوم يا تو پاگل ہو جاتا ہے يا مر جاتا ہے۔

 

اسي منو وادی زہنيت کا شکار ہوئی ہيں ۲۶ ساله خاتون پايل تڑوی’ جنہوں نے ۲۲ مئی کو اپنے سينير سے پريشان ہو کر خود کشی کر لی تھی۔ پايل ايک گائنوکولوجسٹ (gynecologist) تھیں اور مسل بھیل سماج سے تعلق رکھتی تهیں۔ وہ اپنے سماج کی پہلی پیڑھی تهیں جو اعلیٰ تعليم حاصل کرنے ميں کامياب ہوئیں۔ انہوں نے مراج کے سرکاری کاليج سے ايم بی بی ايس کيا تھا۔ اسکے بعد وہ گایٔنوکولوجی ميں پی جی کرنے کے ليے بمبئی آئی تهيں۔ پايل کی سينير ہيما آہوجا’ انکتا کهنڈيلوان اور بھکتی ميہر ان پر طرح طرح کے کمينٹ کرتی تھیں۔ انکے مسلم بھیل سماج سے ہونے کی وجہ سے ہميشہ حقارت سے ديکھتی تھیں اور غير مہزب الفاظ کا استعمال کرتی تھیں۔ اسکے علاوه وه پايل سے ضرورت سے زياده کام بھی کرواتی تهيں۔ روز روز کی اس زہنی ازيت سے تنگ آ کر پايل کو اندر سے توڑ کر رکھ ديا اور آخرکار ۲۲ مئی کو ڈاکٹر پايل پهانسی کے پهندے پر جهول گئں۔

 

پايل کی ماں عابدہ تڑوی کے مطابق انہوں نے دسمبر ۲۰۱۸ ميں ہی پايل کے ساتھ ہونے والی زيادتي کے کی شکايت ايک خط کے ذريعه کی۔ انکے علاوه انہوں نے حادثه سے ۹ روز قبل بهی پی اين ٹوپی والا ميڈيکل کاليج ميں اس معامله کی شکايت کی ليکن کاليج نے کوئی توجه نہیں دی۔ اور پايل کو موت کا راستا اپنانا پڑا۔ پايل اپنے خاندان ہی نہيں بلکہ اپنے پورے سماج کی اکلوتي اميد تهیں۔ وه اپنے لوگوں کے ليے اپنے ضلع جلگاؤں ميں ايک ہسپتال کھولنا چاہتی تھیں۔ ليکن ايک بيمار زہنيت کے مارے لوگوں نے پايل کو مرنے پر مجبور کر ديا۔ اسکے لوگوں کی آخري اميد پر پانی پهير ديا۔ فی الحال تینوں ملزم پوليس حراست ميں ہيں اور انے پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے۔ ان تینو لڑکيوں کا کہنا ہے کہ تینوں بے قصور ہیں۔ انہيں پتا ہی نہيں تھا کہ پايل انوسوچت پسماندہ سماج سے ہيں۔ ڈاکٹر پايل کی موت سے لوگوں کا غصه ابل پڑا ہے۔ لوگ پايل کو انصاف دلانے کے ليے احتجاجی مزاہرہ کر رہے ہیں۔ تهوراٹ کميٹی کے مشوروں کو لاگو کرنے کی مانگ پھر سے کی جا رہی ہے۔ ناگپور کی ڈاکٹر بابا صاحب امبيڈکر نيشنل اسٹوڈينٹ فيڈريشن نے ۲۶ مئی کو مہاراشٹرا کے وزير اعلیٰ ديويندر فڈنويس سے تهوراٹ کميٹی کے مشوروں کو لاگو کرنے کی مانگ کی ہے۔

 

  • تمام چيزیں اپنی جگہ ہيں۔ معاملات سامنے آتے ہيں اور ايک وقت بعد ٹھنڈے پڑ جاتے ہيں۔ ليکن حيرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کيسے لوگ آرکشن پر آنکهيں موندے بيٹھے ہيں اور بنا اسکو جانے اور سمجهے اس سے نفرت کرنے لگتے ہيں۔ بينا سوچے سمجھے دلتوں’ آدیواسيوں اور پسماندہ سماج کو کوستے نظر آتے ہيں۔ انہيں لگتا ہے کہ آرکشن کے ذريعه انکے حقوق انسے چهين کر بہوجن اور پسماندہ کو دے ديے جاتے ہيں۔ جبکہ يہ بالکل صحيح نہيں ہے۔ آرکشن کے ذريعه چنے گيے بہوجن اور پسماندہ معاشره کے لوگ کوئی گناه نہيں کر رہے ہيں۔ نہ کسی کے حقوق چهيں رہے ہيں۔ آرکشن انکا حق ہے۔ ملک ميں حصہ داری انکا حق ہے۔ آرکشن انہيں اسليے ديا جا رہا ہے کہ وہ تا کہ وہ بهی سماج ميں بربارے کا حصہ پا سکيں۔ ملک کے باقی لوگوں کے ساتھ کاندها ملا کر چل سکيں۔ اس زہنيت سے آزاد ہو سکيں جو پانی پر بهی پہرے لگا ديتی ہے۔ جو خود کو اتنا عظيم المرتبت سمجھتے ہيں کہ اپنے کوئں سے پانی تک نہيں پینے ديتے کسی بہوجن کو۔ جو اچھے کپڑے پہن کر نکلنے پار کسی پاسماندہ کو پيٹ پيٹ کر مار ديتے ہيں۔ جو يہ طے کرتی ہے کہ نیچی قوم کا کوئی شخص اؤنچی قوم والے کے ساتھ نہيں بيٹھ سکتا۔ جو سورنو کو بہوجن اور پسماندہ عورتوں کے ساتھ زنابالجبر کی اجازت ديتی ہے۔ جسے ہر پچهڑی قوم کا شخص جنگلی نظر آتا ہے۔ اس زہنيت سے پار پانے کے ليے ہميں آرکشن کی ضرورت ہے۔ ہميں آرکشن کی ضرورت تب تک ہے جب تک ہم برابری پر نہیں آ جاتے۔ جب سورن اور اشراف پچهڑوں کو اچھوت ماننا نہيں چھوڑ ديتے۔ جب تک معاشی اعتبار سے پچھڑے اگڑوں کے برابر نہيں ہو جاتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

آج کے کشمير کے حالات’ کشميريوں کی زبانی – پيٹر فريڈرک کے ساتھ

کشمير مدعہ ايک مکمل سياسی مسئلہ تها ليکن اسے ہندوستانی ميڈيا نے پوری طرح ہندو مسلم کا جام…