उन्नाव बाबतीत’ एक रक्तरंजित खेळ किंवा मजा
انّاؤ ميں ہوۓ زنابالجبر کا معامله دن بہ دن اور سنگين ہوتا جا رہا ہے۔ سبسے پہلے تو ريپ اپنے آپ ميں ايک ائسا عذاب ہے جس سے متاثر ہونے والے شخص کی زندگی جہنم بن جاتی ہے ليکن اسکے بعد ہونے والی ايک کے بعد ايک ايسی وارداتيں کہ جن کے سامنے آنے سے عام آدمی کا قانون اور سرکار دونوں سے بهروسا اٹھ جاۓ۔
سبسے پہلے بی جے پی کے ايک ودهايک کلديپ سنگھ کے یہاں ايک لڑکی کا ريپ ہو جاتا ہے۔ اور يہ پتا چلتا ہے کہ يہ کرتوت خود کلديپ سنگھ کی ہی ہے۔ جايسے ہی يہ بات سامنے آتی ہے تو سرکار اور قانون کے بڑے نمائندے اس پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش کرتے ہيں۔ زنابالجبر جسکے ساتھ ہوآ اسکے والد کو تهانے لايا جاتا ہے اور اتنا مارا جاتا ہے کہ وہ مر جاتا ہے۔ کوئی پوچهنے والا نہيں کہ لڑکی کے باپ کو تهانے لانے کا کيا متلب تها بجاۓ انکے جو اس گهنؤنے جرم کے زمہ دار ہيں۔ اور لڑکی کے باپ کی ہی موت نہيں ہوتی ہے بلکہ اسکی موت کا چشمديد گواہ بهی مارا جاتا ہے۔
اسکے بعد بهی بس نہيں ہو جاتی ہے۔ آگے يہ ہوتا ہے کہ ودهايک صاحب کے آدمی اور خود ودهايک جی لڑکی کے گھر والوں کو مقدمہ واپس نہ لينے پر جان سے مارنے کی دھمکی ديتے ہيں۔ اور يہ صرف کهوکھلی دهمکی نہيں ہوتی بلکہ ريپ وکٹم کے باپ کو مارنے کے بعد اسکے چاچا جو مقدمے کی پيروی کر رہے تهے کو کویٔی مقدمہ لگا کر جيل ميں ڈال ديا جاتا ہے۔
يہ سب کچھ رکتا نہيں ہے بلکہ چلتا رہتا ہے۔ اور اس گھنونے کهيل کے اگلے حصہ ميں يہ ہوتا ہے کہ اپنی چاچی اور وکيل کے ساتھ اپنے چاچا سے جيل ملنے جا رہی زنابالجبر کی شکار لڑکی کی گاڑی کو ايک ٹرک اتنی زور سے ٹکر مارتا ہے کہ چاچی کی موت ہو جاتی ہے اور لڑکی اور اسکا وکيل ہسپتال کے اسٹريچر پر بہنچ جاتے ہيں۔ غور طلب ہے کہ ٹرک ہائیوے پر غلط طرف سے آ رہا تھا اور ٹرک کے نمبر پليٹ پر کالکھ پتی ہوئی تهی کہ نمبر نہ پہچانا جا سکے۔
اور پهر يہ بهی ہوآ کہ علاج کے دؤران ہی مظلومہ کی موت ہو جاتی ہے۔
کيا يہ سب کچھ محض ايک اتفاق ہے۔ کيا يہ تمام واقعات ايک دوسرے سے جڑے ہوۓ نہيں معلوم ہوتے۔ اور حد تو يه ہے کہ قانون اور سرکار اور قوم کے تمام راه نماؤں کے سامنے ہوتا رہتا ہے يہ خونی کهيل ۔ اور صاف طور پر پتا چلتا ہے کہ قانون یا سرکار کی مدد کے بغير يه سب ممکن تو نہيں۔ ليکن سرکار تو اپنے نيتا کو بچانے پر تلی ہے۔ سرکار اپنے کارکن کو بچانے کے ليے کس حد تک گر رہی ہے وہ صاف صاف نظر آ رہا ہے اور يہ اسکی عزت کا سوال ہے۔ ليکن حيران اور پريشان کرنے والی بات يہ ہے کہ اس سے پہلے کی وارداتوں ميں جيسے لوگوں نے شؤر مچا ديا تها اس بار ائسا نہيں ہو رہا۔ اس بار لوگ نا تو مجرم کے ليے سزا کی مانگ کر رہے ہيں نہ مومبتّياں لے کر سڑکوں پر نکلے ہيں۔ اس بار مجرم خود انہيں کا چنا ہوا نيتا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کی پول کھلتی نظر آ رہی ہے۔ کہ انکے سارے کهوکهلے اور جهوٹے آنسو اور جزبات صرف دکھاوا ہيں۔ يہ وہی عاوام ہے جو ان ادهڑی ہوئی لاشوں کو بهی اپنے سياسی مفاد کے ليے استعمال کر رہی ہے۔ ليکن کسے خبر ہے کہ يہ زہريلا سانپ کب کسے نگل لے۔
ضرورت ہے ايک جٹ ہو کر مزہب اور قوم کے چشمے اترا کر سامنے آنے کی۔ ضرورت ہے ايک جٹ ہو کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹهانے کی جس نے ايک ہنستے کهيلتے پريوار کو نگل ليا ہے۔ کم از کم اپنے بچوں اور اپنے گهر والوں کو زہن ميں رکھ کر آواز بلند کريں۔
आज काश्मीर’ काश्मिरी तोंडी – पीटर फ्रेडरीक सह
काश्मिर हा मुद्दा हा पूर्णपणे राजकीय मुद्दा होता परंतु तो हिंदू माध्यमांच्या मुद्दय़ावरून भारतीय मीडियाने पूर्णपणे व्यापला होता.…