घर उर्दू भाजप हुकूमशाही सरकार आणि काश्मीर दु: ख सहन
उर्दू - ऑगस्ट 20, 2019

भाजप हुकूमशाही सरकार आणि काश्मीर दु: ख सहन

 

کشمیر کے حالات سے ان دنوں کون واقف نہيں ہے۔ ملک ہی نہيں بلکہ پوری دنيا ميں اس تاناشاہی فيصلے کا ہی تذکره ہے۔ کشمیر مدعے پر الگ الگ معقف رکهنے والوں کی الگ الگ رائے ہو سکتی ہے ليکن کشمیر کے حالات کيا ہيں يہ اس وقت يا تو ظالم بتا سکتا ہے يا مظلوم اور کشمیر کے حالات آنے والے وقت ميں کيا ہونگے اسکا پتا ہميں يہ سارے بکاؤ نیوز چينل بتا ہی رہے ہيں۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہيں کہ کيا حال ہونے والا ہے۔ ذرا غور کرتے ہيں کشمير کے مؤجودہ حلات پر۔

کشمیر سے دهارا ۳۷۰ کو ہٹا ديا گيا ہے اور اسميں کشمیر کی بهی کوئی رائے نہيں لی گئی ہے۔ صدر مملکت صوبہ کے نگراں کی رضامندی کو ہی صوبہ کی رضامندی مان ليا ہے۔ سبهی خاص کشمیری لیڈروں کو نظربند کر ديا گيا ہے۔

پورے علاقہ ميں فوجی دستے تعينات کر ديے گیٔے ہيں۔ کشمير کے لوگ بری طرح ڈرے ہوئے ہيں اور وه کشميری جو کشمیر سے باہر پڑهائی يا کام کے سلسلے ميں ہيں وہ بهی پنے گهر والوں کی خير خبر نہ ملنے کی وجہ سے پريشان ہيں۔ انٹرنيٹ يا کالنگ سب بند کيا ہوآ ہے۔ پورا کشمير خوف کے جہنم ميں جل رہا ہے اور باقی ملک جشن منا رہا ہے۔ کشمير سے ۳۷۰ ہٹانے کے ساتھ ساتھ صوبہ کا درجہ بهی چهين ليا گيا ہے۔ اب کشمير کوئی صوبہ نہيں ره گيا ہے بلکہ اسے توڑ کر دو ايلتوں ميں بدل ديا گيا ہے جہاں مرکزی حقومت ہے۔ کشمير کو سياسی اعتبار سے اپاہج کر ديا گيا ہے۔ کشمير کے لوگ ڈرے ہوئے ہيں۔ شائد موجودہ حالات کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ کہيں نہ کہيں وه جانتے ہيں آگے چلکر کس درجہ حالات خراب ہوںگے کہ زندگی موت تک کا توازن بگڑ جائےگا۔ وه جانتے ہيں کہ کشمیر ميں کس درجہ قتل و غارت مچيگی۔

مودی سرکار کا کہنا ہے کہ ائسا کرنے سے دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمه ہو جا ئگا۔ گهاٹی ميں امن چين قائم کيا جا سکيگا۔ رؤزگر لایا جا سکےگا۔ ترقی کے نئے راستے کهلينگے۔ ليکںن کيا ايسا سچ مين ممکن ہے۔ وہاں جو حالات رہے ہيں اور جو آنے ولے ہيں کيا ان ميں کسی بهی طرح کی ترقی کے بارے ميں سوچا جا سکتا ہے۔

مودی سرکار کا کہنا ہے کہ اسنے دہشتگردی کی کمر تو نوٹ بندی کے ذريعه توڑ ہی ہی دی ہے۔ تو اب سمجھ نہيں آتا کہ يہ سرکار کس دہشتگردی کی بات کر رہی ہے۔ نہ جانے ائسے کون سے ترقی يافتہ کام تهے جنکے ہونے کے ليے ۳۷۰ کا ہٹنا ضروری تها۔ بنا عوام کا بهروسا جیتے يہ فيصله نری تاناشاہی کے سوا کچھ بهی نہيں۔ يہ وه سوال ہيں کے جو پوچهے جانے چاہيے تهے ليکن نہيں پوچهے جائنگے۔ ہر ظلم کو منطقی پيمانوں پر رکھ کر برابر کر ليا جائےگا۔ ليکن ائسا کچھ نہيں پوچها جائےگا۔ايک خاص طرح کی ذہنيت جو لوگوں کے دل و دماغ ميں بيٹھ چکی ہے سوال ہی نہيں کرنے ديگی۔ بلکہ اسکے مارے ہوئے لوگ جشن منائنگے۔ گالياں دينگے کشمیريوں کو۔ وہاں کی عورتوں اور بچيوں کو سيب بتا کر گهر لے آنے کی کوشش کرينگے۔ وہاں کے نوجوانوں کی موتوں کو صحيح ثابت کر دينگے۔ ہر ايک جبر کوہر ايک ظلم کو کشمیری پنڈتوں پر ہوئے ظلم سے جسٹیفایٔ کر ليا جائےگا۔ اور کشمیر ہی نہيں بلکہ کشمیر سے باہر بهی کشمیریوں کو مارا پیٹا جائگا۔

ليکن يہ سب ہو کيوں رہا ہے۔ کيا مودی سرکا کشمیری مسلمانوں کے ليے فقرمند ہے۔ کيا بہوجنوں اور مسلمانو کے متعلق اس پارٹی کے خيالات بدل گئے ہيں۔

نہيں ائسا نہيں ہے۔ کشمیر کے موضوع پر بات شروع ہوتے ہی کشمیری پنڈتوں کی آڑ ميں نفرتوں کی الٹياں کرنے والوں کو نہ تو کشمیری پنڈتوں سے کوئی لگاؤ ہے نہ انکے گهروں کے دوبارا بس جانے سے۔ بس اسکی آڑ ميں يہ نفرت کی کهائی جو انہوں نے خود سے کهودی ہے پورے ملک ميں کو اور گہرا کرنا چاہتے ہيں۔

اس مدعے کو سنجے ٹیکو سے بہتر کوئی بيان نہیں کر سکتا۔

سنجے ٹیکو ۱۹۹۰ دہشت گرد الگاؤوادی کارگزاريوں کے بعد بهی نہ صرف گهاٹی ميں مقيم ہیں بلکہ وہاں آج بهی رہنے والے ۸۰۲ کشمیری پنڈتوں کے پریواروں کے حقوق کے لئے لڑنے والی تنظيم کے سربراه ہيں۔

انکا کہنا ہے کہ ۳۸۰ ہٹانے کی يہ کاغزی کارواہی بہت خطرناک ہے۔ جبکہ ايک وقی ہوا کہ ۳۸۰ اپنا وجود بہت پہلے ہی کهو چکی تهی۔

وه کہتے ہيں کہ بے گهر پنڈتوں کی بات تو بهول ہی جائے۔ موجوده پنڈتوں پر بهی اسی خطرے سے دو چار ہونے کی نوبت آ گئی ہے۔ حالات ۱۹۹۰ سے زيادہ خطرناک ہو چلے ہيں۔

سنجے ٹیکو کہتے ہيں کہ جنوبی کشمیر اور اننتناگ کے کئی پريواروں کو پوليس نے کشمیر سے باہر بهيج ديا ہے۔ آخر کيوں۔ ليکن يہ بهی سوچنے کی بات ہے کہ جو لوگ کشمیر ميں رہنے والے ۸۰۲ ہندو پريواروں کا درد نہيں سمجھ سکتے۔ انکے خؤف کو محسوس نہيں کر سکتے وه گهاٹی ميں تيس سالوں سے ملٹری حقومت اور دہشتگردی جهيلنے والے مسلمانوں کا درد کيا سمجهيںگے۔

प्रतिक्रिया व्यक्त करा

आपला ई-मेल अड्रेस प्रकाशित केला जाणार नाही. आवश्यक फील्डस् * मार्क केले आहेत

हे देखील तपासा

आज काश्मीर’ काश्मिरी तोंडी – पीटर फ्रेडरीक सह

काश्मिर हा मुद्दा हा पूर्णपणे राजकीय मुद्दा होता परंतु तो हिंदू माध्यमांच्या मुद्दय़ावरून भारतीय मीडियाने पूर्णपणे व्यापला होता.…