منشی پريم چند’ قلم کا سپاہی
- کسی بهی ادب بلکہ ادبی تخليق کا وجود کب تک رہےگا يا پهر وه کب تک لوگوں کو متاثر کريگی اسکا تعلق يا تو انسانی جزبات و احساسات سے ہے يا پهر اسکے ارد گرد کے ماحؤل سے۔ کيونکه اگر کوئی تخليق لوگوں کے زہن و دل پر اثر نہيں ڈال رہی تو وه رائگاں ہی ہے۔ منشی پريم چند اپنے وقت کے بڑے نثرنگاروں ميں سے ايک ہيں اور آج بهی انکا لکھا ہوا پسند کيا جاتا ہے۔ پڑھا جاتا ہے اور بکتا بهی ہے۔ مجھے نہيں لگتا کہ يہ پريم چند کی نثر کا کمال ہے کہ انہيں آج بهی پڑها جاتا ہے۔ ميں نے اپنے کیٔی دوستوں کو حيرت اور خوش دلی کے ساتھ کہتے سنا کہ پريم چند کمال کے رائٹر ہيں اور انکی رائٹنگ آج بهی خود سے جوڑ کر رکهتی ہے۔ پريم چند ميريے نزديک بهی بڑے نثرنگار ہيں ليکن انکی اس بات پر ميں سمجھ نہيں پاتا که خوش ہونا چاہيے که افسوس کرنا چاہيے۔ اگر پريم چند آج بهی اتنا ہی ريليوينٹ ہے جتنا اپنے زمانے ميں تها تو يه اسکی نثر کی کاميابی ہو کہ نہ ہو ليکن ہماری ناکميابی ضرور ہے۔
پريمچند اپنی کہانيوں ميں جس معشرہ کا ذکر کرتے ہيں وه معشرہ خود انکی نظروں کو گراں گزرتا تها۔ وہ جن کرداروں کو تشکيل دے رہے تهے وہ تمام کردار انہيں کے ارد گرد کے وہ مظلوم لوگ تهے جو کبهی قدرت تو کبهی اونچی جات والے زميںداروں کا ظلم جهيل رہے تهے۔ وہ تمام کردار پريم چند کو اور پريم چند انہيں بہت اچهی طرح جانتے تهے۔ اور پريم چند خود انہيں ميں سے ايک تهے۔ ابهی کل ہی انکی ايک تصوير فيس بک پر وائرل ہو رہی تهی جس ميں وہ اپنی اہليہ کے ساتھ ہيں اور بہت پرانے سے لباس ميں ہيں۔ اور پهٹے ہوئے جوتے سے پير کا انگوٹھا باہر آ رہا ہے۔
ہم اور ہمارا نظام آج بهی کوئی تبديلی نہيں لا سکا ہے۔ غريبی اور ظلم آج بهی ويسے کا ويسیا ہی ہے۔ بس شکل ذرا تبديل کر لی ہے اور وہ بهی شہروں ميں۔ ورنہ گاؤں کے حالات آج بهی وہی ہيں۔ وہی ذات کے نام پر لوگوں کے ساتھ غير مساواتی رويہ اور تمام طرح کے ظلم آج بهی اتنی ہی شدت رکهتے ہيں جتنی پريم چند کے زمانے ميں تهی۔ آج بهی شہروں ميں کارپوريٹ کی دنيا ميں بے روزگاری کے مارے ہوئے نوجوانوں کا استحسال اتنی ہی شدت سے کيا جا رہا ہے جتنا اس زمانے ميں کسانوں کا کيا جاتا تها جنکے پاس وصائل نہيں تهے۔ تو کيا عجب ہے کہ آج بهی پريم چند اتنا ہی جوڑتا ہے اپنی نثر سے جتنا پہلے۔ آج بهی تو وہی حالات ہيں۔ بلکہ ديکها جائے تو کچھ تبديلياں آئی تو ہيں۔ پريم چند کے زمانے ميں’ انکی کہانيوں ميں اور انکے کرداروں ميں ايک خاص طرح کی اخلاقيت پائی جاتی تهي۔ محبت اور مروت موجود تهی ليکن آج ہم اس سے بهی ہاتھ دهو بيٹھے ہيں۔ ہمارے پاس اب نہ تو اپنے اطراف موجود لوگوں کے لئے نہ تو وه محبت اور مروت باقی ہے اور نہ ہی وہ اخلاقيت جو پريم چند کے کرداروں ميں نظر آتی ہے۔ البتہ اس زمانے کی تمام برائياں اژدہے کی شکل اختيار کر چکی ہيں۔
اور يہی نہيں بلکہ پريم چند اور انکے ہم عصروں کے بهی تمام اچھے کردار نظر نہيں آتے اور نہ ہی پريم چند سے پہلے کے تخليق کاروں کے ہی۔ ہاں برائياں پہلے سے زياده ہو گیٔی ہيں۔ دؤرِ جديد ميں قدريں ائسے تبديل ہوئی ہيں کہ ہم افسوس کرنے کے سوا اور کچھ نہيں کر سکتے۔
خير يہ مضمون لکھا گيا ہے پريم چند کی يومِ ولادت کے سلسلے ميں۔ يہ عظيم فنکار ہمارے لئے واقئی فخر کا مرکز ہے کہ وه ہم لوگوں کے درميان کا ہی ايک فرد تھا جو ہمارے ان دکھوں کو بهی لکھ گيا جن پر ہم صرف بين کر سکتے تهے۔ جن پر ہم صرف سر دهن رہے تهے۔ اور غور کرتا ہوں تو پاتا ہوں کہ يقيناً پريم چند کی روح افسوس زده ہوتی ہوگی يہ ديکه کر کہ وہ ہميں جہاں چهوڑ کر گئے تهے ہم آج بهی وہيں ہيں۔
پريم چند نے ائسے باريک اور ناذک مسائل نثر کئے جو اصل میں وارداتیں تهیں اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہی تهيں۔ پريم چند نے ہماری انکهوں سے وہ پردے نوچ لئے ہيں کہ جن کی وجہ سے ہم ان وارداتوں کو ديکھ نہيں پا رہے تهے۔ يا ديکھ کر بهی انديکها کر رہے تهے۔ پريم چند نے انسانی جزبات و احساسات کا کون سے پہلو کو نہيں چھوآ ہے آپنی دکھتی انگليوں سے۔ پريم چند نے کن مضاميں کی پيشانی پر اپنا ہاتھ نہيں رکھا ہے۔ انکا کردار سماج کا ہر شخص ہے۔ انکی نظر ميں حال ماضی اور مستقبل تینوں يک وقت موجود ہيں۔ انکے سامنے مضاميں و الفاظ دست بستہ کھڑے رہتے ہيں کہ انہيں کسی پيرايے ميں ڈهالا جا سکے۔ معاشرے کا دکھ اور تمام رنج و الم انکے يہاں نثر ملتے ہيں۔ کبھی کبهی زہن ميں آتا ہے که اگر بنٹوارے کا دکھ اور چوراسی کے دنگوں کے حالات ديکهتے تو کيا عالم ہوتا۔
آج کے کشمير کے حالات’ کشميريوں کی زبانی – پيٹر فريڈرک کے ساتھ
کشمير مدعہ ايک مکمل سياسی مسئلہ تها ليکن اسے ہندوستانی ميڈيا نے پوری طرح ہندو مسلم کا جام…