ہندوستان کے معاشی نظام کے بدتر حالات
ہندوستان کے معاشی نظام کے بدتر حالات
ملک ميں آئے دن کچھ نہ کچھ نيا ہو رہا ہے۔ ٹی وی کهول کر ديکهئے تو روز کچھ نہ کچھ ائسا ديکهنے کو مل جاتا ہے کہ عام آدمی بس افسوس ہی کر کے رہ جائے۔ ملک جس طرف جا رہا ہے ادهر صرف خساره ہی خساره نظر آ رہا ہے۔ ملک معاشی خستگي کی طرف گامزن ہے۔ اور ملک کی عوام کا دهيان بهٹکا کے رکهنے کے لئے سرکار کے پاس بے شمار ہتهکنڈے نما موضوعات بهی ہيں۔
جولائی ۲۰۱۸ کو عالمی بينک نے اعلان کيا کے ہندوستان فرانس کو پچهاڑ کر دنيا کا سبسے بڑا معاشی نظام بن چکا ہے اور کسی بهی وقت يہ يو کے (.U.K) کو بهی پيچهے چهوڑ سکتا ہے۔
يہ ہر ہندوستانی کے لئے فخر کی بات تهی۔ ہمارا معاشی نظام اس ملک کو ٹکر دے رہا تها جسکے ہم کبهی غلام رہے تهے۔ ليکن اسی وقت موجودہ حکومت اس کاميابی کے لئے اپنی پیٹھ تهپتهپا رہی تهی جبکہ اس کامياب ميں مؤجودہ حکومت کا کوئی ہاتھ نہيں تها يہ تو کچھ مخصوص حالات کے تحت اس سرکار ميں بس ہو گيا۔
سرکار نے اسکے لئے کچھ نہیں کيا۔ بلکہ سرکار کے عمل دخل تو ائسے رہے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو شائد اور بہتر حالات ہوتے۔
خير اب ديکھيں کہ پهر سے عالمی بينک کی جانب سے فہرست آئی ہے۔ فرانس نے ہندؤستان کو پھر پچهاڑ ديا ہے اور چهٹهے نمبر پر آ گیا ہے۔ جبکہ ہندوستان ساتويں نمبر پر ہے۔
ہندوستان ۲.۷۳ ٹريلين ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ ساتويں نمبر پر ہے جبکہ فرانس ۲.۷۸ ٹريلين ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ چھٹھے نمبر پر ہے۔
یو ائس ۲۰.۴۹ ٹريلين ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ پہلے نمبر پر قابض ہے۔
میڈيا اس پر پوری طرح خاموش ہے اور نہ تو عوام کو ہی سچ بتا رہی ہے نہ سرکار پر ہی کوئی انگلی اٹها رہی ہے۔ کسی چينل يا کسی اخبار کے پاس سرکار سے پوچھنے کے لئے کوئی سوال نہیں کہ ائسا کيا ہوا کہ تيزي سے عروج پر جاتا ہندؤستان کا معاشی نظام اچانک ايک دم سے رک گیا ہے۔ جو رؤپيا ۲۰۱۷ ميں تين فيسد کی در سے بڑھ رہا تها اس ميں ۲۰۱۸ ميں اس ميں ۵ فيسد کا نقصان درج کيا گيا۔ کيا کوئی يہ سوال سرکار سے پوچھنے والا نہيں که ہندوستانی کرينسی کی اتنی زيادہ پٹائی کيسے ہوئی۔ اس کالے پئسے کا کيا ہوا کہ جس کے چکر ميں ہندوستان کی عوام کی زندگی تباه کر دی تهی آپنے۔ بنا کسی اطلاع کہ نوٹ بند کر دئے گئے جس کی وجہ سے لگبهگ ۱۵۰ ۲۰۰ لوگوں کو آپنی جان سے ہاتھ دهونا پڑا تها۔
جی ایٔس ٹی لگا کر ہندوستان کے کاروباریوں کو کنگال کر ديا۔ ہر کوئی مندی کی مار سے پريشان ہے۔ آٹوموبائل سيکٹر پچهلی دو دہائیوں سے اپنے سبسے برے دؤر سے گزر رہا ہے۔ ليکن سب خاموش ہيں۔ جيسے سرکار نے بولنے پر بهی پابندی لگا دی ہو۔ اور سچ تو يہ ہے کہ لگا دی ہے۔
جو سوال پوچھ سکتے تهے انکے منھ اگر بند ہيں تو کسی نہ کسی طرح تو بند کئے ہی گئے ہونگے۔
اور جو اکا دکا لوگ سوال کر رہے ہيں انکی سنی نہيں جا رہی۔ اور باقی لوگ يعنی عوام کو طرح طرح سے الجھا کر رکها ہوا ہے۔
۵ جولائی کو پيش ہوئے بجٹ کے بعد سے فؤرين پورٹ فوليو انويسٹرس اب تک انڈئين سٹاک مارکيٹ سے ۲۰۵۰۰ کروڑ روپيے نکال چکے ہیں۔ ہندوستان کے نظام زر کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ اس بڑبولی سرکار کے پاس صرف باتيں ہی باتيں ہيں اور پهندے ہی پهندے ہيں۔ اور عوام بهی اپنی سارے دکھ درد بهول کرپاکستان’ رام مندر اور تين طلاق ميں الجهی ہوئی ہے۔
اپوذیشن اتنا ناکارہ اور نکما ہے کہ وہ بهی میڈيا کی طرح چپی لگا کے بيٹھا ہے۔
آج کے کشمير کے حالات’ کشميريوں کی زبانی – پيٹر فريڈرک کے ساتھ
کشمير مدعہ ايک مکمل سياسی مسئلہ تها ليکن اسے ہندوستانی ميڈيا نے پوری طرح ہندو مسلم کا جام…